وجود

... loading ...

وجود

جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں!

بدھ 12 مارچ 2025 جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں!

معصوم مرادآبادی

میں نے حال ہی میں مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد کا سفر کیا ہے ، جو مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے نام سے موسوم ہے ۔اس سفر کابڑا مقصد اورنگزیب عالمگیر کی تربت پر حاضری دینا تھا، جسے مسمار کرنے کے مطالبات ایک بار پھر زور پکڑ رہے ہیں۔اورنگ آبادکے دونوجوان صحافی شارق نقشبندی اور احمدتوصیف مجھے اپنی گاڑی میں بٹھاکر اورنگ آباد سے تیس کلومیٹر دور خلدآباد لے گئے، جہاں حضرت نظام الدین اولیاء کے اجل خلیفہ شیخ برہان الدین اور آپ کے خلیفہ زین الدین داؤد شیرازی کے مزارات کے پہلو میں اورنگزیب کی ایک معمولی سی قبر ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جہاں تمام مغل بادشاہوں کی تربتوں پر نہایت عالیشان مقبرے تعمیر کئے گئے ہیں تو وہیں اورنگزیب کی تربت کچی اور کھلے آسمان کے نیچے ہے ۔نہ تو یہاں کوئی مقبرہ ہے اور نہ کوئی تام جھام۔ دراصل اورنگزیب نے احمد نگر میں اپنی موت (3مارچ1707) سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ انھیں حضرت زین الدین داؤد شیرازی کی پائینتی میں دفن کیا جائے ۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں اکثر یہاں آتے تھے اور بڑا سکون محسوس کرتے تھے ۔اورنگزیب کے مزار کی موجودہ جالی اوراحاطہ بندی لارڈ کرزن کی فرمائش پر حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی خاں نے کرائی تھی جو سنگ مرمر کی ہے ۔ اورنگ زیب کے مزار کے سرہانے ان کی مختصر تاریخ ولادت اور وفات درج ہے ۔اسی احاطے میں دوسرے مزارات کے علاوہ ان کے شہزادے اعظم شاہ کی بھی قبر ہے ، جنھوں نے اپنی ماں دلرس بیگم کی یاد میں اورنگ آباد میں بی بی کا مقبرہ تعمیر کرایا تھا، جسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے ۔
یوں تو فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اورنگزیب کو ہندودشمن قرار دے کر عرصے سے نشانہ بنارہی ہیں، لیکن اس بار وہ ایک پروپیگنڈہ فلم ‘چھاوا’ کے حوالے سے منظر عام پرآئے ہیں جس میں انھیں بھر پور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔اس فلم کے منظرعام پر آنے کے بعد اورنگ زیب کو بدی کی قوت ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگایا جارہا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ مہاراشٹر اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے رکن ابوعاصم اعظمی کے ایک بیان کے بعد جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ابوعاصم اعظمی نے محض اتنا کہا تھا کہ ”اورنگ زیب کے دور اقتدار میں ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اس کی سرحدیں برما اور افغانستان تک تھیں۔اس بیان پر ان کی اس حد تک گھیرا بندی کی گئی کہ انھیں اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ پھر بھی انھیں کسی ضابطہ کے بغیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے معطل کردیا گیا۔دراصل مہاراشٹر میں اس وقت بی جے پی کی مخلوط سرکار داخلی انتشارکا شکارہے ۔ اس کے ایک وزیردھننجے منڈے کو ایک سرپنچ قتل کیس میں نام آنے پر مستعفی ہونا پڑا ہے ۔ نظم ونسق کاحال یہ ہے کہ ایک خاتون مرکزی وزیر کو اپنی بیٹی کے ساتھ ہوئی چھیڑ چھاڑ کے خلاف خود تھانے میں جاکر ایف آئی آر درج کرانی پڑی ہے ۔ایسے میں اصل مسئلہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اورنگ زیب سے بہتر موضوع کون سا ہوسکتا تھا۔
جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے مسلم حکمرانوں کا نام ونشان مٹانے پر کمربستہ ہے ۔ ان کی یادگاریں مٹائی جارہی ہیں اور ان کے ناموں سے موسوم جگہوں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔یہاں دہلی میں بی جے پی کے دوارکان پارلیمنٹ نے تغلق روڈ پر الاٹ کی گئی اپنی کوٹھیوں پر تغلق روڈ کے بجائے وویکانند روڈ لکھ دیاہے ۔یہ کام نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اورنگ آباد ضلع کا نام تبدیل کرکے چھترپتی سمباجی نگر کردیا گیا ہے ۔میں نے اپنے سفر کے دوران اس شہر میں سب سے بڑی تبدیلی یہ محسوس کی کہ جہاں جہاں اورنگ آباد لکھا ہوا تھا وہاں وہاں سیاہی پھیر کرچھترپتی سمبا جی نگر لکھ دیا گیا ہے ۔چھترپتی سمباجی دراصل چھترپتی شیواجی کے بیٹے تھے ، جنھیں اورنگزیب نے بوجوہ قتل کردیا تھا۔اورنگ زیب کی زندگی کا بیشتر حصہ جنوبی ہند کو فتح کرتے ہوئے گزرا۔ ان کی قلمرو میں ہندوستان کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔انھوں نے ہندوستان پر تقریباً پچاس برس حکومت کی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک بادشاہ کے طور پرانھوں نے وہ سب کیا جو وہ اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے کرسکتے تھے ۔ انھوں نے اپنے والد شاہجہاں کومعزول کرکے قید کیا۔ اپنے بھائی داراشکوہ کا اس کے فاسد عقیدے کی وجہ سے سرقلم کرادیا اور اس کا جسد خاکی بغیر سر کے ہمایوں کے مقبرے میں دفن ہوا، لیکن جہاں تک ان پر ہندو دشمنی کا الزام ہے تو اس کی تردید اس بات سے ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں کم ازکم سو مندروں کو جائیدادیں عطا کیں اور بہتر نظم ونسق چلایا۔ یوں تو کئی غیر مسلم مورخین نے اپنی کتابوں میں اس کی نشان دہی کی ہے مگر میں یہاں مشہور مورخ بی این پانڈے کا حوالہ دینا چاہوں گا، جو ایک زمانے میں اڑیسہ کے گورنر تھے اور اپنے دور کی اہم علمی اورسیاسی شخصیت تھے ۔اس وقت بی این پانڈے کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات پیش نظر ہے ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ 1988میں خدابخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا تھا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے ۔ اس کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔وہ لکھتے ہیں:
جس طرح شیوا جی کے متعلق انگریز مورخوں نے غلط فہمیاں پیدا کیں، اسی طرح اورنگ زیب کے متعلق بھی۔بچپن میں، میں نے بھی اسکولوں کا لجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اس طرح کی بدگمانی تھی۔ لیکن ایک واقعہ پیش آیاجس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ میں تب الہ آباد میونسپلٹی کا چیئرمین تھا۔ تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ہے ۔ اس کے پجاری کی موت کے بعد مندر اور مندر کی جائیداد کے دو دعویدارکھڑے ہوگئے ۔ دونوں نے میونسپلٹی میں اپنے نام داخل خارج کی درخواست دی۔ ان میں سے ایک فریق نے کچھ دستاویزیں بھی داخل کی تھیں۔ دوسرے فریق کے پاس کوئی دستاویز نہ تھی۔ جب میں نے دستاویز پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وہ اورنگزیب کا فرمان تھا۔ اس میں مندر کے پجاری کو ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے جاگیر میں دو گاؤں عطا کیے گئے تھے ۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دستاویز نقلی ہیں۔ اورنگزیب تو بت شکن تھا۔ وہ بت پرستی کے ساتھ کیسے اپنے کو وابستہ کرسکتا تھا؟ میں اپنا شک رفع کرنے کے لیے سیدھا اپنے چیمبر سے اٹھ کرسر تیج بہادر سپرو کے یہاں گیا۔ سپرو صاحب فارسی کے عالم تھے ۔ انھوں نے فرمان کو پڑھ کر کہا کہ یہ فرمان اصلی ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب، عالمگیر تو مندر توڑتا تھا، بت شکن تھا، وہ ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے کیسے جائیداد دے سکتا ہے ؟سپرو صاحب نے منشی کو آوازدے کر کہا منشی جی، ذرا بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مثل تو لاؤ۔
منشی جی مثل لے کر آئے توڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان تھے جن میں جنگموں کو معافی کی زمین عطا کی گئی تھی۔ڈاکٹر سپرو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے صدر تھے ، جس کے عہدے داروں میں ڈاکٹر بھگوان داس، سید سلیمان ندوی،پنڈت سندر لال اور ڈاکٹر تارا چند تھے ۔ میں بھی اس کا ایک ممبر تھا۔ ڈاکٹر سپرو کی صلاح سے میں نے ہندوستان کے خاص خاص مندروں کی فہرست مہیا کی، اور ان سب کے نام یہ خط لکھا کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگزیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا فرمائی ہو(خصوصاً اورنگزیب)تو ان کی فوٹو کاپیاں مہربانی کرکے بھیجیں۔ دوتین مہینے کے انتظار کے بعدہمیں مہاکال مندراجین،بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ مورخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔(ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات، صفحہ17 اور 18،ناشرخدابخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ)
بی این پانڈے کی کتاب سے لیا گیا یہ اقتباس اورنگ زیب کے اصل کردار کو واضح کرتا ہے ۔ یہ حوالہ اتنا مضبوط اور موثر ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے حوالے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن اس وقت ملک میں جو ماحول ہے ، وہاں کوئی عقل کی بات سننے والا ہی نہیں ہے ۔ سب کچھ جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر ہورہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا، کیونکہ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح اس ملک کی تاریخ و تہذیب سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹایا جائے ۔اس مہم کا سب سے بڑا نشانہ مسلم حکمراں اور ان کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ اور جنون وجود هفته 22 مارچ 2025
جذبہ اور جنون

کشمیر میں ہندی زبان کی ترویج وجود هفته 22 مارچ 2025
کشمیر میں ہندی زبان کی ترویج

محبت کے پیکر حافظ حسین احمدبھی کوچ کرگئے! وجود هفته 22 مارچ 2025
محبت کے پیکر حافظ حسین احمدبھی کوچ کرگئے!

آپ مسائل کا کب شکار ہوتے ہیں؟ وجود هفته 22 مارچ 2025
آپ مسائل کا کب شکار ہوتے ہیں؟

زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو بڑے دل سے منائیں وجود جمعرات 20 مارچ 2025
زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو بڑے دل سے منائیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر