وجود

... loading ...

وجود

مسلمانوں کی قیمتی جائیدادوں پر مودی سرکار کی نظر

پیر 10 فروری 2025 مسلمانوں کی قیمتی جائیدادوں پر مودی سرکار کی نظر

ریاض احمدچودھری

ہندو انتہا پسند بھارت میں مسلمان کی جان ومال کا تحفظ نہیں اب مودی سرکار بھارتی مسلمانوں کی قیمتی وقف جائیدادیں ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ مودی کی سربراہی میں بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت سے متعلق یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ وقف قانون کی آڑ لے کر مسلمانوں کی قیمتی وقف جائیدادوں کو ہڑپنا چاہتی ہے۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں جو لگ بھگ 10 لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں۔ ان میں زرعی زمینوں کے ساتھ شہری عمارتیں، دکانیں، مساجد، مزارات اور قبرستان بھی شامل ہیں اور ان کی موجودہ مالیت 14 ارب امریکی ڈالر (پاکستانی لگ بھگ 3920 ارب روپے) ہے۔ مسلمانوں نے یہ جائیدادیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر رکھی ہیں اور ان سے ہونے والی آمدنی مدارس اور دیگر فلاحی مسلم اداروں کو ملتی ہے اور انہیں 32 وقف بورڈ چلاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف اِن کی آمدن مدارس اور دیگر فلاحی مسلم اداروں کو ملتی ہے، انہیں 1995وقف ایکٹ کے تحت کام کرتے 32 وقف بورڈ چلاتے ہیں۔تاہم مودی سرکار جس میں مسلمان خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اب وہ وقف بورڈ کو کرپشن کا گڑھ بتا کر وقف ایکٹ میں ترمیم کر رہی ہے۔ اس ترمیم کے تحت وقف جائیدادوں کا انتظام وقف بورڈز کے بجائے ریاستی حکومتوں کی تحویل میں آ جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم مخالف اقدامات کے باعث مودی سرکار عالمی اور مسلم ممالک کے دباؤ میں ہے اور اس نے خصوصاً عرب ممالک سے تعلقات متاثر ہونے سے بچانے کے لیے قانون کی آڑ میں یہ گھناؤنا ہتھکنڈا اپنا رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، جس کی مسلمان اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہے ہیں۔حکومت کی ان ترامیم کو وقف کے املاک کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں ایک بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔وقف بورڈ کے قوانین میں کی گئی ترامیم حکومت کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ ازخود یہ تعین کرے کہ کوئی جائیداد وقف کی ملکیت کیسے بنے گی یا ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کی تشکیل کیسے ہو گی۔وقف املاک کا معاملہ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔مجوزہ ترامیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی جے پی رہنما پریم شْکلا کا کہنا تھا کہ ‘وقف بورڈ کے پاس 50 ممالک کے رقبے سے زیادہ اراضی ہے، اس لیے اس لینڈ جہاد کو روکنے کے لیے حکومت ایک بل لا رہی ہے جو وقف بورڈ کو شفاف بنائے گا۔’تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی ہے۔
وقف ایکٹ پہلی بار 1954 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ بعد میں اسے منسوخ کر 1995 میں ایک نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے تھے۔2013 میں اس ایکٹ میں مزید ترمیم کی گئی، جس کے تحت وقف بورڈ کو لوگوں کی طرف سے وقف کی گئی جائیداد کو ‘وقف جائیداد’ کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔یہ اکثر کہا جاتا تھا کہ ایک بار وقف کی گئی جائیداد ہمیشہ کے لیے وقف بورڈ کی جائیداد ہوتی ہے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں 32 وقف بورڈ ہیں، جن میں شیعہ اور سنّیوں کے خصوصی وقف بورڈ بھی شامل ہیں۔لیکن اتنے وسیع پیمانے پر جائیداد ہونے کے باوجود بھی مبینہ بدعنوانی کے وجہ سے وقف بورڈ کو محض 200 کروڑ روپے کی آمدنی ہی ہوتی ہے، جس پر مسلم تنظیموں نے پہلے بھی تنقید کی تھی اور شفافیت کا مطالبہ کیا تھا۔وقف بورڈ کے پرانے قانون میں تقریباً تین درجن تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جنھیں ناقدین نے مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ان ترامیم کا مقصد ظاہری طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی بورڈز میں خواتین کی تعداد کو بڑھانا بھی ہے۔یہ بِل مرکزی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات سکے۔ترامیم کے ذریعے ‘استعمال کے ذریعہ وقف’ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔
واضح رہے کہ کئی معروف اور مالدار مسلمان شخصیات اکثر اپنی جائیداد کے کچھ حصے کو وقف کیا کرتے تھے، لیکن قانونی طور پر وقف کے پاس بہت ساری زمینوں کے کاغذات نہیں اور بہت سی زمینوں کے دستاویزات گْم ہو چکے ہیں۔ان میں سے کئی جائیداد یا زمینیں اس زمانے میں وقف کی گئی تھیں جب جائیداد کو زبانی طور پر وقف کرنا عام تھا اور دستاویزات کا استعمال عام نہیں تھا۔ایسے میں مثال کے طور پر ایک مسجد کو وقف نامے کی عدم موجودگی میں بھی وقف کی جائیداد تصور کیا جاتا تھا۔نئی مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر کسی جائیداد کا وقف نامہ موجود نہیں تو وقف کی اس جائیداد کی ملکیت مشتبہ تصور کی جائے گی۔سرکاری ذرائع نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ اس نے ترامیم کو متعارف کروانے سے پہلے مسلمانوں اور ان کی تنظیموں سے مشورہ کیا لیکن کئی مسلمانوں اور ان سے وابستہ تنظیموں نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔مسلمان تنظیموں کے ایک گروپ ‘آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت’ نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔یہ بھارت کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور 22 کروڑ سے زیادہ اقلیتی شہریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔’


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر