... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفائی نصف ایمان ہے جو ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے حاصل نہیں کررہے ہم پھل کھاتے ہیںتو اسکے چھلکے جہاں دل کرتا ہے پھینک دیتے ہیں۔ گھروں کا کوڑا جاتے جاتے دوسروں کے دروازے کے پا س رکھ جاتے ہیں اور سگریٹ پینے والے تو اسے پینے کے بعد جوتے کی نوک سے اس وقت تک مسلتے رہتے ہیں جب تک فرش کالا نہ ہوجائے ۔اور تو اور موٹروے اور جی ٹی روڈ پر بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والے چلتی کار کا شیشہ نیچے کرکے خالی بوتل باہر پھینک کر پھر بیک مرر سے اس کامزہ لیتے ہیں۔ اسے شعور کی کمی کہیں یا بے خوفی جہاں دل کیا کوڑا پھینک دیا۔ اسی لیے تو ہمارے گلی محلے صاف ہیںاور نہ ہی ہمارے شہر اور پھر اسکا نتیجہ بھی ہم ہی بھگتتے ہیں جب بارش ہوتی ہے تو وہی کوڑا کرکٹ نالیوں اور سیوریج میں جا پھنستا ہے اور پانی گلیوں سے ہوتا ہوا لوگوں کے گھروں میںداخل ہو جاتا ہے اور ہم حکومت کو گالیاں نکالنا شروع کردیتے ہیں مانا کہ اس میں ہمارے بلدیاتی اداروں کے ملازمین کا بھی قصور ہوگا جو وقت پر نہیں آتے یا کچھ تو ایسے خلیفے بھی ہیں جو اپنی تنخواہ کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے سے اوپر والے کو دیکر کام پر ہی نہیں لگتے خیر اب پنجاب حکومت نے اس پر بھی توجہ دینی شروع کردی ہے۔ اور صوبہ کو صاف شفاف بنانے کے لیے ایک انتہائی اچھا فیصلہ کیا ہے۔ لاہورسمیت پنجاب بھرمیں اپنے گھر اور دوکان کے باہر کوڑاپھینکنے والوں کو اب ایک ہزار روپے جرمانہ کیاجائے گا ۔ اگر ہم لاہور کی بات کریں تو ایک کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر کاروزانہ کوڑا تقریبا 7سو ٹن سے زائد ہوتا ہے اگر ایک دن خاکروب چھٹی کرلیں توپورا لاہور کچرے کا ڈھیر بن جاتا ہے اور اس ڈھیر میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کی صفائی تو رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے گھر کا گند باہر کھلے عام پھینک دیتے ہیں جس سے بعض اوقات بدبو بھی آنا شروع ہوجاتی ہے۔
بارش کے موسم میں ہماری گلیاں اور سڑکیں جوہڑ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیںاسکی بڑی وجہ بھی یہ ہوتی ہے کہ ہمارا پھینکا ہوا گند سیوریج لائنوں میں پھنس جاتا ہے اور ویسے بھی ہمار ا جو سیوریج سسٹم ہے وہ بہت پرانا ہو چکا ہے جسے اب بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کے اکثر مقامات پر نالے بنے ہوتے تھے جو پانی کو بہا کرلے جاتے لیکن ہم نے ان نالوں کو بھی بند کردیا جو باقی بچے ہوئے ہیں وہ گندگی اور کوڑے سے بھر چکے ہیں اوران نالوں کی کبھی صفائی بھی نہیں ہوئی ۔لاہور سے اکٹھا ہونے والا کوڑا محمود بوٹی لے جاکر اکٹھا کیا جارہا ہے جہاں سے گذرنے والے بخوبی جانے ہیں کہ وہاں کی ہوائوں میں کیسی بدبو ہوتی ہے محمود بوٹی میں کھلے عام غیر سائنسی طریقے سے کچرا پھینکا جاتاہے جس کے ماحولیاتی اثرات بھی سنگین ہیں اس کھلے ڈمپنگ سے مٹی، زیر زمین پانی اور قریبی آبی ذخائر آلودہ ہونا شروع ہوگئے تھے جسکے بعد LWMC نے لکھوڈیر میں سینیٹری لینڈ فل سائٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور 52 ہیکٹر اراضی بھی حاصل کرلی اس سائٹ کا انتخاب مجوزہ اراضی کے جیو ٹیکنیکل اور انوائرنمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (EIA) اسٹڈیز کے بعد کیا گیا تھا مگر جس مقصد کے لیے یہ زمین
حاصل کی گئی تھی وہ پورا نہ ہوسکا ہمارے ہاں کچرے کو ری سائیکل کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے حالانکہ دنیا میںکچرے سے گیس ،بجلی اور کھاد تیار کی جارہی ہے اور ہمارے ہاں اس کا تصور بھی نہیں ہے بلکہ دنیا کے صاف ستھرے ممالک کی فہرست میںہمارا کہیں کسی جگہ کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے دنیا کے صاف ستھرے پہلے پانچ ممالک میںجاپان، جرمنی ،آسٹریا ،جنوبی کوریا اور سوٹزر لینڈ ہے جہاں تقریبا 51فیصد کچرے سے مختلف اشیا بنائی جارہی ہیں سوئٹزرلینڈ میں کوڑے کو ری سائیکل کرنا لازمی ہے اور ایسا نہ کرنے والے کو جرمانہ ہوتا ہے وہاں 50فیصد فضلہ ری سائیکل کیا جاتا ہے اور باقی کا فضلہ توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے 2016 کے بعد سے جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ ری سائیکلنگ کی شرح رکھتا ہے جہاں پورے کچرے کا 56.1 فیصد ری سائیکل کیا جاتا ہے آسٹریا آسٹریا میں ری سائیکلنگ کی شرح 53.8 فیصد ہے اور ہمارا لاہور جو پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ویسٹ مینجمنٹ کا ہے حالانکہ حکومت نے بھاری بجٹ میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بھی بنائی ہوئی جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور (سی ڈی جی ایل) نے 19 مارچ 2010 کو کمپنیز آرڈیننس 1984 کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کی تھی کمپنی کے قیام کے بعد CDGL اور LWMC کے درمیان ایک سروسز اور اثاثہ جات کے انتظام کا معاہدہ ہوا (SAAMA)، SWM ڈیپارٹمنٹ (CDGL) اور TMAs کے تمام افعال اور اثاثے LWMC کو سونپے دیے گئے LWMC کا مقصد سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ایک مربوط نظام تیار کرنا تھا تاکہ لاہور میں پیدا ہونے والے کچرے کو موثر طریقے سے جمع کرنے، نقل و حمل، بازیافت، ٹریٹمنٹ اور ٹھکانے لگانے کو یقینی بنایا جا ئے LWMC کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے کمپنی نے مختلف شعبوں میں تجربہ کار پیشہ ور افراد کی خدمات بھی حاصل کی لیکن اسکے باوجود وہ امیدیں پوری نہیں ہوئی جو ان سے توقعات تھی فضلے کے انتظام کے فقدان کی وجہ سے یہ اب انسانی زندگی کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے حالانکہ یہ ری سائیکلنگ میں شامل کمپنیوں اور افراد کے لئے آمدنی اور روزگار پیدا کرنے کے لحاظ سے مواقع کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے امید ہے نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی عوام کے اس دکھ اور درد کو سمجھتے ہوئے اس حوالہ سے بھی کوئی نہ کوئی کام کرہی گذریں گے رہی بات ایک ہزار جرمانے والی میںسمجھتا ہوں کہ اس پر اب عمل بھی ہونا چاہیے صرف زبانی جمع خرچ نہ کیا جائے جب تک جرمانے نہیں ہونگے اس وقت تک ہم بھی اپنا قبلہ درست نہیں کرینگے کمپنی کے انفورسمنٹ آفیسر چوہدری عمر اس سلسلہ میں بڑے متحرک ہیںاور انکے بقول وہ یہ جرمانے وہ کر بھی رہے ہیں اب ہمیں بطور قوم سمجھنا چاہیے کہ کسی کے گھر کے سامنے رکھنے والا کوڑا بارشوں میں اپنے ہی گھر کا دروزاہ بند کردیتا ہے صفائی نصف ایمان ہے تو پھر ہمیںاس پر عمل کرکے اپنے آپ کو سچا اور پکا مسلمان بھی ثابت کرنا پڑے گا اسی میں خوبصورتی ہے ہماری ،شہر کی اور ملک کی ۔
٭٭