... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ خیرات و صدقات تقسیم کرنے والے ممالک میں ہوتاہے ۔ قطع نظر اِس کے کہ یہ دعویٰ درست بھی ہے یا نہیں۔ مگر ہم پاکستانی من حیث القوم اپنے اِس دعویٰ پر فخر و مباہات سے دوہرے ہوئے جاتے ہیں ۔حالانکہ ہماری حکومت اور بعض سیاسی و مذہبی تنظیمات یا فلاحی اداروں سے وابستہ معزز شخصیات اپنے ہاتھ میں کاسہ گدائی لے کر سارا سال دیس بدیس امداد کی بھیک کے لیے جتنے چکر لگاتی ہیں، اُن مناظر کو ملاحظہ کرنے کے بعد دنیا میں شاید ہی کوئی فاتر العقل شخص ہوگا ،جو ہمارے مذکورہ دعوی کی صحت پر ذرہ برابر بھی یقین کرے گا۔لیکن چلیں تھوڑی کے لیے مان لیتے ہیں کہ واقعی ہم پاکستانی سب سے زیادہ عطیات اور خیرات بانٹتے ہیں ۔مگر جس غیر منظم،عامیانہ اور تحقیر آمیز اندا زمیں ہمارے ملک میں غریب اور مستحق لوگوں کے درمیان زکوۃ ،صدقات اور خیرات تقسیم کی جاتی ہے ۔کیا اِس کے لیے زکوۃ تقسیم کرنے جیسا مقدس اور صاف ستھرا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی ایک جواب طلب سوال ہے ۔کیونکہ میرے خیال میں تو ہمارے صاحبِ ثروت حضرات خیرات نہیں بلکہ موت بانٹتے ہیں اور لوگ بھی معاشی طور پر اتنے مجبور اور مقہور ہو چکے ہیں کہ وہ ایک آٹے کا تھیلا ، دو وقت کا راشن اور چند سو روپوں کی نقدی کی خاطر جوق درجوق، اپنی ہنستی بستی زندگی کے عوض میں موت وصول کرنے کشاں کشان اُن کے پاس چلے آتے ہیں ۔
ماہ صیام میں کتنی دل خراش خبر سننے کو ملی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے سائٹ ایریا نورس چورنگی کے قریب ایک نجی فیکٹری میں زکوۃ کے فی کس دوہزار روپے کی تقسیم کے دوران ہونے والی دھکم پیل اور بھگڈر مچنے سے 3 معصوم بچوں سمیت 12 افراد جاں بحق ہوگئے۔جبکہ بے شمار افراد شدید زخمی ہوگئے اور مرنے او رزخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔المیہ ملاحظہ ہو کہ زکوۃ و صدقات کی تقسیم کی صرف ایک چھوٹی سی سرگرمی میں جتنی معصوم جانوں کا ضیاع ہواہے ۔ اتنا جانی نقصان تو بعض اوقات دہشت گردی کی کسی بڑی کارروائی یا سانحہ کے نتیجہ میں بھی نہیں ہوا کرتا۔اِس واقعہ سے ہمارے سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت اور اخلاقی دیوالیہ پن کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔یعنی اَب ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اتنی بے ترتیبی اور افراط و تفریط در آئی ہے کہ بظاہرایک بے ضرر سی دکھائی دینے والی فلاحی سرگرمی بھی ہمارے لیے الم ناک تباہی و بربادی کا باعث بن جاتی ہے۔
مذکورہ حادثہ پر پولیس کا موقف ہے کہ’’ فیکٹری مالکان کی جانب سے زکوۃ کی تقسیم سے قبل ہمیں اطلاع فراہم نہیںکی گئی تھی ، اگر ہمیں خبر کردی جاتی تو مناسب پولیس اہلکاروں کو مقررہ مقام پر تعینات کردیا جاتا اور یہ سانحہ سرے سے پیش ہی نہ آتا‘‘۔ پولیس کا وضاحت نامہ اپنی جگہ مگرمسئلہ تو یہ ہے کہ جب ملک کے ہر شہر کی ہر گلی اور محلے میں خیرات بانٹنے والوں نے لوگوں کا ہجوم اپنے اردگرد اکٹھا کیا ہوا ہو تو کیا محکمہ پولیس کے پاس اتنے اضافی اہلکار موجود ہیں کہ وہ ہر گلی کے کونے پر تقسیم ہونے والی زکوہ و صدقات وصول کرنے والے کی قطاریں بنانے کا فریضہ انجام دے سکیں ۔ معذرت کے ساتھ اگر ہماری پولیس ہجوم کو قابو اور منظم کرنے پر اتنی ہی قدرت رکھتی تو ملک کے کئی شہروں میں آٹے کے تھیلے کی تقسیم کے دوران کئی لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کے واقعات رونمانہیں ہوتے ۔ یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پرمفت آٹے کے تھیلے تو سرکاری سرپرستی میں تقسیم کیے جارہے ۔ مگر وہاں بھی بدانتظامی اور بے ترتیبی اپنے پورے عروج پر ہے اور مستحق لوگ سارا سارا دن صرف ایک آٹے کے تھیلے کے حصول کے لیے ذلیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اپنی عزت نفس کو رسوا کروانے کے بعد بھی لوگوں کی اکثریت کو خالی ہاتھ ہی اپنے گھروں کو لوٹنا پڑتاہے۔
یہاں ایک حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ یا احساس پروگرام کے ذریعے اگر مفت آٹے کا تھیلا تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل کرلیا جائے تو شاید یہ مسئلہ حل ہو سکتاہے ۔ مگر یہ تجویز صرف وہ ہی شخص دے سکتاہے ،جس نے بے نظیر انکم سپورٹ یا احساس اسکیم کے تحت پیسے وصول کرنے والی خواتین کی لمبی لمبی قطاریں اے ٹی ایم مشینوں کے باہر نہ دیکھی ہوں ۔ بدقسمتی سے بے نظیر انکم سپورٹ اور احساس اسکیم کے تحت پیسے تقسیم کرنے کاطریقہ کار کچھ اتنا بھی منظم نہیں ہے ،جتنا کہ اُس کا ڈھول پیٹا جاتاہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ کسی بھی ایسی اے ٹی ایم مشین کا وزٹ کرلے ،جہاں رواں ماہ کے پیسے وصول کرنے والی خواتین کا رَش ہو۔ سخت گرمی ،شدت کی دھوپ اور روزے کی حالت میں سارا سارا دن اے ٹی ایم مشینوں کے باہر کھڑی رہنے والی خواتین کی جتنی بے توقیری ہورہی ہوتی ہے ۔وہ بھی ناقابل بیان ہے۔
دراصل سرکاری لنگرخانے ہوں ، بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم ہو۔احساس پروگرام کے حکومتی کارنامے ہوں ،سب کے سب پاکستانی عوام کو تن آسان بھکاری بنانے کے عظیم الشان پروجیکٹ ہیں ۔ جن کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ غریب اور مستحق لوگ اتنے پکے اور سچے بھکاری بن جائیں کہ بعدازاں اُنہیں محنت کرکے کھانے اور کمانے کی بالکل عادت ہی نہ رہے ۔ بدقسمتی سے حکومت سمیت ملک کا ہر فلاحی ادارہ لوگوں کو مفت آٹا ،راشن ،زکوۃ و صدقات مانگنے کی ترغیب تو ضرور دیتا ہے لیکن شاید ہمارے ملک میں دردِ دل رکھنا والا کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو کسی غریب اور مستحق شخص کو ہنرمند بنانے یا باعزت روزگار مہیا کرنے کے لیے خلوص نیت کے ساتھ کوئی سعی و کاوش کرنا چاہتاہو۔ لہٰذا،سستی شہرت او رکھاوے کے لاعلاج موذی مرض میں مبتلا سماج میںرہنے والے کسی بھی شخص کے لیے اَب یہ ممکن ہی نہیںرہا ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس ،عزیز رشتہ دار وں کو خاموشی کے ساتھ اپنی زکوۃ و صدقات دے سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭