پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مفاہمت ختم ہوگئی!

nawaz-sharif

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی مفاہمت اب ایک دوسرے پر بوجھ بنتی جارہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر قمرالزماں کائرہ نے دبئی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز کہا تھا کہ حزب اختلاف کا مضبوط کردار ادا نہ کرنے کے باعث اُنہیں سیاسی طور پر نقصان ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ نقصان اس کے بغیر ہی عام انتخابات میں ہوچکا تھا۔ پیپلز پارٹی اب پنجاب میں کسی بھی طرح کے ووٹر کے لئے کوئی اچھا اور بہتر انتخاب نہیں رہی۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی اس روایتی کلیے کو سامنے رکھتے ہوئے پیش قدمی کرنا چاہتی ہے جو کسی بھی حکمران جماعت کے خلاف پھوٹنے والے فطری جذبات کے باعث پیدا ہونے والی گنجائش سے متعلق ہے۔ مگر یہ نوے کے عشرے کا سیاسی ماحول نہیں جس میں ووٹر کا انتخاب صرف دو جماعتوں تک محدود تھا۔اب میدان میں تحریک انصاف ہے اور وہ پی پی تو کجا مسلم لیگ نون کوبھی سانس لینے کا موقع دینے کے لئے تیار نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بلاول بھٹو نے پنجاب میں سیاسی بازار سجایا تو میاں نوازشریف نے مسلم لیگ سندھ کے رہنماؤں کو اسلام آباد مدعو کر لیا۔مگر ان دوواقعات کے درمیان کچھ اور متوازی سیاسی لہریں پہلے سے ہی اُٹھ چکی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے ایک نہایت گرما گرم بیان مسلم لیگ نون کی قیادت اور ان کی حکومت کے خلاف داغا تھا۔ جس نے میاں نوازشریف کو حیران کر دیا تھا۔ اس کا ذکر اُنہوں نے سندھ کے اہم جماعتی رہنماؤں سے اجلاس کے دوران میں بھی کیا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ آصف علی زرداری نے اُن کے خلا ف بیان کیوں دیا؟تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تاحال اس بیان سے پیداہونے والی فضا پر کوئی قابو نہیں پایا جاسکا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اگرچہ اپنے جماعتی رہنماؤں کو اس مسئلے پر جوابی گولہ باری سے روک لیا تھا مگر دوسری طرف اُنہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے اپنی سیاسی تال میل کی گرمجوشی کو بحال کرنے میں کوئی خاص پیش رفت بھی نہیں کی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہ توقع تو پوری نہیں ہو سکی کہ اُن کے بیان کے بعد نون لیگ سیاسی طور پر الجھن کی شکار اور اُنہیں منانے کے لئے اُن کے مطالبات پر غورکرنا شروع کرے گی۔ جو ڈاکٹر عاصم حسین سے لے کر کراچی میں جاری آپریشن کے بعض منتخب حصوں پر پیپلز پارٹی کے تحفظات کے حوالے سے ہیں۔ گویا پیپلز پارٹی کا یہ تیر خالی گیا ہے۔

نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اندرون سندھ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف زیادہ شور کئے بغیر منظم مقابلے کئے جائیں گے

اس دوران میں ایم کیوایم کے استعفوں نے بھی سندھ کے اندر ایک خاص فضا پیدا کر رکھی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اب اِن استعفوں پر ایم کیو ایم کو منانے کاکام عملاً ختم ہو چکا ہے۔ اور نون لیگ نے خالص فوجی تاثر دینا شروع کر دیا ہے ۔ یعنی اس مسئلے پر وہ گونگے بہرے بن گئے ہیں۔ اب اگر کراچی اور حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی ۲۴ اور سندھ اسمبلی کی ۵۱ نششتیں خالی ہو جاتی ہیں تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف اُٹھانے کے قابل ہے۔ جو نون لیگ کو ہر گز گوارا نہیں۔ اس طرح قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا سیاسی وزن اور حجم دونوں میں ہی اضافہ ہو جائے گا اور نون لیگ کو نہایت سخت حزبِ اختلاف کے طور پر تحریک ِ انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ مسلم لیگ نون کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد کو مکمل طور پر ایم کیو ایم کے بعد اب تحریکِ انصاف کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع نے’’ وجود ڈاٹ کام ‘‘کو تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت ایم کیوا یم کے استعفوں کے بعد کی صورتِ حال پر بہت زیادہ دھیان دے رہی ہے ۔کیونکہ نون لیگ کے لئے بلدیاتی انتخابات سے زیادہ کٹھن مرحلہ کم از کم سندھ اور کراچی کی حد تک ضمنی انتخابات ہوں گے۔

پس بلاول بھٹو کے دورۂ پنجاب کے متوازی ان سیاسی لہروں کو بھی دھیان میں رکھتے ہوئے نون لیگ نے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات دونوں میں ہی مسلم لیگ کو کراچی اورسندھ میں زیادہ فعال اور متحرک بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔میاں نوازشریف کی سندھ کے رہنماؤں کے ساتھ بیٹھک مجموعی طور پر اس تناظر میں ہوئی ہے۔ جس میں نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اندرون سندھ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف زیادہ شور کئے بغیر منظم مقابلے کئے جائیں گے۔دوسری طرف کراچی میں بھی نون لیگ کو متحرک کیا جائے گا۔ اس ضمن میں نوازشریف نے مختلف ناراض جماعتی رہنماؤں کو منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں وہ اس جانب پیش رفت کریں گے۔واضح رہے کہ نون لیگ کی سندھ میں تنظیم نہایت ابتری سے دوچار ہے۔ اور نون لیگ نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دانستہ طور پر سندھ میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر رکھا تھا تاکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اُن کی قومی سطح کی مفاہمت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مگر اب یہ مفاہمت ایک دوسرے پر سیاسی بوجھ بنتی جارہی اور پیپلز پارٹی پنجاب میں جبکہ نون لیگ سندھ میں اپنے پتے آزمانے کے لئے کمربستہ ہو چکی ہیں۔