لاڑکانہ میں رینجرز پر حملے کی ذمہ داری سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کر لی!

rangers-larkana

سندھ کی علیحدگی پسند جماعت سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے لاڑکانہ میں رینجرز پر ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ گزشتہ روز میروخان روڈ پر ہونے والے دھماکوں میں ایک رینجرز اہلکار جاں بحق اور دیگر 15 افراد زخمی ہوگئے تھے جن میں پانچ سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔اب پولیس کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے ایک پمفلٹ میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے رینجرز پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اطلاعات کے مطابق مذکورہ پمفلٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ “ہم چاہتے ہیں کہ رینجرز سندھ کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں سے فوری طور پر نکل جائے۔”

اگر چہ رینجرز پر حملے اور مذکورہ پمفلٹ کے بعد واضح طور پر تفتیش کے لیے کچھ رہنما خطوط میسر ہیں ، مگر تاحال اس حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ لاڑکانہ کے ڈی آئی جی عبداللہ شیخ کے مطابق ہ پولیس مذکورہ پمفلٹ کی تحقیقات کررہی ہے۔ رینجرز پر لاڑکانہ میں حملے کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب رینجرز کے اختیارات پر پیپلزپارٹی نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اور رینجرز کی کارروائیوں کے باوجود اُس کے قانونی اختیارات سرکاری کاغذات کی حد تک بالکل ختم ہو گئے تھے۔

سندھ کے سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ رینجرز کے سندھ میں قیام کی توسیع اور اختیارات کی سمری کودستخط کیے بغیر اپنا منصب چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ جبکہ نئے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے بھی اپنا منصب سنبھالنے کےبعد دوروز تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا ۔ یہاں تک کہ اُنہیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دبئی طلب کرکے رینجرز کے اختیارات کی سمری پر فوری دستخط کرنے کی ہدایت کردی۔

رینجرز پر سندھ میں حملے کا یہ واقعہ اس اعتبار سے بھی قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ رینجرز نے اپنے ایک اعلامیے میں یہ کہاتھا کہ ستمبر 2013 سے اب تک مختلف کارروائیوں کے دوران اندرون سندھ سے 533 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود رینجرز پر لاڑکانہ میں حملے کا واقعہ پیش آیا۔ جس کی ذمہ داری قبول کرنے والی سندھو دیش ریولوشنری آرمی کا نام اس سے پہلے بھی مختلف کارروائیوں میں سامنے آتا رہا ہے۔

اس سے قبل مئی 2016 کو کراچی کے علاقے گلشن حدید میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے تب یہ انکشاف کیا تھا کہ حملے کا نشانہ دراصل چینی شہری تھے جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے کچھ دیر قبل ہی وہاں سے گزرے تھے۔تب راؤ انوار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ دھماکے کے مقام سے سندھی زبان میں ایک دھمکی آمیز خط ملاتھا جس میں غیر ملکیوں کو سندھ کے کوئلے کے ذخائر سے دوررہنے کی دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا گیا تھا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو اُن پر مزید حملے کیےجائیں گے۔اطلاعات کے مطابق یہ خط بھی سندھودیش ریولوشنری آرمی کاتھا۔ جس میں سوڈھو سندھی نامی ترجمان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سندھ کے گیس اور کوئلے کے ذخائر سے غیر ملکیوں کو دوررہنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔