کل۔چر

دوستو،مورخین اور ماہرینِ علم بشریات و عمرانیات نے کلچر کی اپنے اپنے انداز میں تعریف کی ہے۔ایک تعریف تو یہ ہے کہ تہذیب شہروں میں پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی شہر بسائے جاتے ہیں، تو شہروں میں مختلف پیشہ ور کاریگر اپنے فن اور ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ کلچر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلوں، دور چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہنے والی آبادیوں سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق لوگوں کی روزمرہ زندگی، ان کے رہن سہن اور رسم و رواج سے ہوتا ہے۔دوسری طرف جو جرمن کرتے ہیں، وہ تہذیب اور کلچر کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تہذیب کا تعلق مادی وسائل اور ٹیکنالوجی سے ہوتا ہے، جب کہ کلچر کا تعلق روحانیت سے ہوتا ہے جسے جرمنKulturکہتے ہیں اور اس کی اہمیت ان کے ہاں تہذیب سے زیادہ ہے۔تیسری تعریف یہ ہے کہ تہذیب ایک بڑا یونٹ ہے اور اس کے اندر کئی کلچر سما جاتے ہیں۔ اس صورت میں تہذیب اور کلچر آپس میں مل جاتے ہیں۔
ثقافت یا کلچر کا نام ہمارے ہاں استعمال کیا جاتا ہے جو بہت کم صحیح معنوں میں ہوتا ہے اور اسے تہذیب و تمدن کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ تہذیب اور تمدن یا انگریزی میں سولائزیشن بالکل الگ چیز ہے اور کلچر یا ثقافت ایک علیحدہ چیز ہے۔ اور اسے تب سمجھا جا سکتا ہے جب اس کی بنیاد اور تاریخ پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔کلچر کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جب انسان نے زراعت کا پیشہ اختیار کیا بلکہ یوں کہیے کہ بنی نوع انسان کے اندر دو مستقل گروہوں میں سے ایک نے زراعت کی ابتدا کی دوسرے گروہ نے جانور پالنا شروع کیے۔ اور انسانی ارتقاء میں ان دونوں گروہوں کی ابتدا شکاری گوشت خور اور زرعی سبزی خور سے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کا دور ملا جلا دور کہلایا جا سکتا ہے۔کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کسی ظریف نے پاکستانی کلچر کے بارے میں یہ فقرہ کسا تھا کہ پاکستان میں کلچر ولچر کوئی نہیں، یہاں تومحض ایگریکلچر ہے۔ بات تفنن طبع کے لیے کہی گئی تھی اوراس لیے اس کا سواگت بھی قہقہوں سے ہوا تھا مگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو ظریف میاں کی اس بات میں کوئی سچائی کا عنصر بھی موجود تھا کیونکہ کلچر کا لغوی مفہوم ہی کھیتی باڑی ہے۔ To Cultureکا مطلب ہے زمین کو فصل کے لیے تیار کرنا، اس میں ہل چلانا، جھاڑ جھنکار سے اسے صاف کرنا اور اس میں کھاد ڈال کر اسے زرخیز بنانا، تاکہ اس میں اگنے والی فصل توانا ہو۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ کلچر کا مفہوم محض زمین کی تیاری نہیں۔ زمین توکلچر کا صرف کثیف حصہ ہے، اگرچہ اس کثیف حصے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر اسے خارج کردیا جائے تو کلچر کا نام ونشان ہی باقی نہ رہے۔ دوسرا حصہ کلچر کی پاکیزگی اور ارفع صورت میں سامنے آتا ہے۔
یہ تو تھیں ساری کتابی باتیں، جو ہم نصاب اور ادب کی مختلف کتابوں میں پڑھتے ہی رہتے ہیں،باباجی کا اس حوالے سے بالکل تھری سکسٹی ڈگری مختلف نظریہ ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں جو چیز کسی بھی معاشرے میں بہت زیادہ فعال یا رائج ہوجائے، یا یوں کہہ لیں کہ جس کا استعمال بہت زیادہ ہونے لگے وہ آہستہ آہستہ کلچر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ہم نے جب ان کے اس فلسفے کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے کہ۔۔ مثال کے طور پر سیاست میں ایک زمانہ میں حریف کی عزت کی جاتی تھی، اس کا احترام سیاست دان اپنے بیانات اور تقاریر میں کرتے تھے، لیکن اب تذلیل کی انتہا کرنے لگے ہیں، حد تو یہ ہے کہ مخالفین کی آڈیو اور وڈیو بھی لیکس ہونے لگ گئی ہیں۔بیس تیس سال بعدیہ سب ہمارے معاشرے کا حصہ بن جائے گا۔باباجی نے ایک مثال دی کہ ہمارے مذہب میں بہت سی چیزیں ایسی شامل کردی گئی ہیں جو نبی کریم ﷺ اور صحابی کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے زمانے میں بالکل بھی نہیں تھیں، لیکن اب ان چیزوں کواصل دین یا مذہب پر ترجیح دی جانے لگی ہے اور اس کے خلاف بولنے والوں پر کفر کے فتوے تک لگنے لگے ہیں، یعنی اب یہ ہمارے کلچر میں شامل ہوگیا ہے۔باباجی نے جب ہماری سڑی ہوئی شکل دیکھی تو اپنی مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ایک اور مثال دینے پر اتر آئے، کہنے لگے۔۔لفافہ انسانوں کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے۔ دو افرادکے ملاپ کا ذریعہ ہونے کے سبب لفافہ بڑا فیورٹ اور پسندیدہ رہا ہے اور موبائل فون سے پہلے ہر گھر میں سب سے زیادہ انتظار اسی کا ہوتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ لفافے کا استعمال بھی بدلتا رہا، پھر یہ ہوا کہ جب غیر قانونی نذرانوں کی تقسیم و ترسیل کا کاروبار شروع ہوا تو اس مشکل کام کے لیے لفافہ ہی کام آیااور جب میدانِ سیاست کے ’’چوہدریوں‘‘ نے صحافیوں میں پیسے بانٹنے کا آغاز کیا تو یہ بوجھ بھی لفافے نے ہی اٹھایا۔ لفافوں کے ذریعے مالِ حرام کی ترسیل کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ’ لفافہ کلچر’ کے نام سے ایک نیا کلچر وجود میں آگیا۔
باباجی کو جب لگا کہ کلچر کے حوالے سے ان کا فلسفہ بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا ہے اور وہ ہمارے سر سے گزرگیا ہے تو انہوں نے اپنے ’’اشٹائل‘‘ میں ہمیں سمجھانا شروع ہوئے، کلچر کی دو مزید آسان مثالیں سن لو۔۔ ایک یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیوں کے دو الگ الگ گروپ بنائے گئے، لڑکوں کے گروپ نے ریسرچ کی کہ۔۔۔ جو لڑکیاں گنجے لڑکوں کا رشتہ مستردکردیتی ہیں تو شادی کے پانچ سال بعد ان کے شوہر گنجے ہو جاتے ہیں۔۔۔لڑکیوں نے جوابی ریسرچ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ۔۔ جو لڑکے موٹی لڑکیوں کے رشتوں سے انکار کرتے ہیں ان کی بیویاں دو سال بعد ہی موٹی ہوجاتی ہیں۔۔۔دلہن کی رخصتی کے وقت ایک آنٹی اسے نصیحت کرنے لگی۔۔ بیٹی ایویں ایویں تھوڑا سا تو رو لو۔۔۔ جس پر وہ ماڈرن دلہن چلائی۔۔۔ روئے وہ جو مجھے لے کر جارہے ہیں۔۔ہم نے حیرت سے باباجی کو دیکھااور کہا۔۔ان مثالوں کی بھلا کلچر سے نتھی کرنے کی کیا ’’تُک‘‘ بنتی ہے؟؟ فرمانے لگے۔۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں رشتے مستردکرنے کی وبا پھیلی ہوئی ہے،یہ اسی طرح جاری رہی تو پھر سمجھو یہ بھی ہمارا کلچر بن جائے گا۔ اور پہلے ہمارا کلچر تھا کہ لڑکیاں رخصتی پر روتی ہیں، یہ کلچر بھی اب آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگاہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات بھی کلچر کے حوالے سے ہی ہے۔۔تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو جمعہ کے رو زمسجد جائے اور اپنی اپنی جوتی پہن کر واپس آئے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔