پاناماہنگامہ باقی ہے میرے دوست

اگر توبات سیاسی اخلاقیات کی ہوتی یا پھر کسی بھی قانونی موشگافی کی تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہوتی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پاناماقضیئے کے فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی میاں محمد نواز شریف اخلاقی برتری کے ساتھ ساتھ حقِ حکمرانی کا قانونی اور آئینی جواز بھی کھو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مروّج سیاسی اور معاشرتی نظام کے ایک طالب علم کے طور پر میری پہلے دن سے ہی یہی رائے رہی ہے کہ یہ نظام ابھی خودکشی کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں ہے اس لئے میاں نوازشریف، آصف علی زرداری ، عمران خان یا اس نوع کی کسی بھی مخلوق کو کچھ بھی ہونے کاامکان بہت ہی کم ہے۔ گزشتہ ایک سال میں خاکسار نے اس رائے کا انہی الفاظ میں متعدد مرتبہ اظہار بھی کیا تھا جس پر کچھ احباب بدمزہ بھی ہوتے رہے اور کبیدہ خاطربھی۔
تمام ساجھے داروں کی طرف سے یہ نظام ”پرامن بقائے “باہمی کے جس اصول پر چلایا جا رہا ہے اس میں میاں نوازشریف اور ان کے ارد گرد جمع راتب خوروں کے علاوہ ان کے حامی سیاسی چمونوں کی بھی بقاءاس نظام کے دوام میں ہے کہ یہ نظام (جیسا بھی ہے) یوں ہی چلتا رہے۔ جب کہ اندرونی اور بیرونی طاقتیں اس بات پر مائل نظر نہیں آتیں کہ وہ موجودہ نظام میں کسی جوہری تبدیلی کو قبول کر سکیں۔ یہی وہ مقام اور دلیل ہے جو میاں نواز شریف اور اس طرح کی دیگر شخصیات کے وجود کو سیاست کے شطرنج پرجواز بخشتی ہیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے جج حضرات اگر تھوڑی سی زحمت کر کے اپنے گریبانوں میں جھانک کر قوم کو بتا سکیں کہ کیا وہ اسی مفاد پرستی اور زرپرستی کے گھٹیا، غلیظ اور قبیح نظام سے گزر کر اوپر نہیں آئے جس کے خلاف جہاد کا انہیں ایک دم ہیضہ ہوا ہے۔ کیا وقت کے موجودہ لمحے کو گزرے لمحے سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں سے تین مارشل لاوں کے ادوار کو کھرچا جا سکتا ہے اور کیا پہلے مارشل لاءکے نتیجے میں سیاسی جنم لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے ذریعے سیاسی مخالفین کا معاشی ناطقہ بند کرنے کے عمل کو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مٹاکر پھینک دیا گیاہے۔ وہ جج حضرات جن کو اس فیصلے کو لکھتے وقت آئین یاد آیا ان کو یہ آئین مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے ہوئے کیوں یاد نہیں آیا تھا؟ جب گیہوں کا بیج ڈالیں تو گیہوں اگے گا نہ کہ چاول۔
اگر تو اس عدلیہ نے ملک میں تین مارشل لاءلگانے والوں کو تاریخ کے کوڑے دان کا عبرت ناک حصہ بنا ڈالا، اور اس ملک میں صنعت کاری اور صنعت سازی کے مستقبل میں آخری کیل ٹھونک ڈالنے پر ان کو قبر سے نکال کر سزا دے ڈالی، تو پھر میاں نواز شریف کو بھی میرٹ پرگھر بھیجنا بنتا ہے۔ لیکن اگر اس ملک میں آخری مارشل لاءلگانے والا ، بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف ، دنیا میں آئین اور قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے ، نائٹ کلبز میں دھمالیں ڈالتا پھرتا ہے ، تو پھر اس عدلیہ کو، جو موجودہ نظام کا حصہ اور اس کی آئینی محافظ ہے، کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس ملک کی طقبہ اشرافیہ پر انگلی اٹھا کر خود کو افتخار حسین چوہدری بناتے ہوئے اس قوم کے آدرشوں، آرزووں اور امیدوں کو اپنے گھٹیا مفادات کی بھینٹ چڑھائے۔
جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے کا نعرہ لگانے والے اس معاشرے میں جب میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف ایک دن میں لکھ پتی سے ککھ پتی ہوئے تو انہوں نے اپنی زندگی گزارے کے لیے ہر سہارا لیا جو ان کو معاشی دیوالیہ پن سے بچا سکتا تھا۔ جب جان پہ بن آئے تو کیا حلال اور کیا حرام، کیا قانونی اور کیا غیر قانونی، کیا آئینی اور غیر آئینی؟پہلے بھی کہا اور پھر خم ٹھونک کر کہتا ہوں کہ اگر آپ کو میاں نواز شریف کی جائیدادوں اور ذرائع آمدن کا حساب درکار ہے تو پھر
طولِ شب فراق ذرا ناپ دیجئے
پھر ذرا ان حالات و واقعات کا حساب دینا بھی ان جج صاحبان اور ان کے حامیوں پر فرض ٹھہرتا ہے جن سے یہ جرائم سرزد ہوئے۔ یہ جج صاحبان ذرا آرٹیکل چھ کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کر کے دکھادیں، میاں نواز شریف کا سیاسی سر یہ قوم اس کے قدمو ں میں خود لاکے ڈال دے گی۔
دل لگتی نہیں لیکن خدا لگتی تو یہی ہے کہ یہاں پر آپ کے پر جلتے ہیں تو پھر اس نظام کے آئینی محافظ ہونے کے ناطے آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ لکھے سکرپٹ پڑھنے والے ان طوطے اینکروں کی باتوں کو اپنے فیصلوں کا حصہ بنائیں، جن کے نا خیالات اپنے نہ الفاظ اپنے۔ دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اینکر کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ اس کی رائے کو آئینی دستاویزات کا حصہ بنایا جائے کیوں کہ سب کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے پروگرام کو ہٹ کروا کے اس کی ریٹنگ کی دوڑ میں اینکر کیا کچھ نہیں کررہا ہوتا، جس میں حقائق کو اپنی مرضی سے مروڑنے سے لے کر اس کو بغیر کسی وجہ کے جھٹلانا بھی شامل ہوتا ہے۔لیکن جہاں پر ”گاڈ فادر“ نامی ناول کا حوالہ دیا جا سکتا ہے وہاں اینکر تو یقیناً بہت اعلیٰ دانشور ہونا چاہیے، اور اگر ایسا ہو گیا ہے جو کہ ہو گیا ہے تو پھر اس معاشرے کی ذہنی سطح، شعور اور تخلیقی آزادانہ سوچ پر فاتحہ پڑھ لیجئے۔
لیکن اگر آپ کے اپنے حالات جامع اور خامیوں سے پاک نہیں تو پھر دوسرے پر بھی وہی قانون لاگو کیجئے جو آپ نے اپنے لئے پسند کیا تھا۔ بہت اچھی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اور ہونی چاہیے، سیاسی معاملات طے کرنے کا فورم ہی پارلیمنٹ ہے، جب یہ معاملات یہاں سے نکل کر سڑک پر یا پھر عدلیہ کے پاس جائیں گے تب ہی ملک میں اس سیاسی بندر بانٹ کا آغاز ہوگا، اور آخر میں بلیوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور بندر پھر آف شور اثاثے بنا کر دبئی کے نائٹ کلب میں ناچتا ہوا آپ کو بتاتا پایا جائے گا کہ فلاں عرب حکمران نے ،جو گزشتہ سال مر گیا تھا، مجھے ایک ارب روپیہ تحفے میں دیا تھا۔
٭٭….٭٭