امریکی اقدام’’ بڑی جنگ‘‘ کی جانب پہلا قدم!

(دوسری قسط)
صورتحال یہ ہے کہ عرب حکومتوں کی جانب سے احتجاجی بیانات کے بعد عرب لیگ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ مقبوضہ القدس کے معاملے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اٹھایا جائے گا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب اتنی مار کھاکر بھی یہ نہیں سمجھ سکے کہ اقوام متحدہ کا قیام کیوں عمل میں لایا گیا تھا ’’اسی عطار کے لونڈے سے دواء لیتے ہیں ‘‘ کے مصداق اب پھر عرب حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔ ٹرمپ بے شک پاگل قسم کا شخص ہے لیکن اس پاگل کو ایک مقصد کے تحت صہیونی اسٹیبلشمنٹ وائٹ ہائوس لے کر آئی ہے اس سلسلے میں امریکی کانگریس سے قرارداد 1995ء میں ہی منطور کروا لی گئی تھی اب اس پر عملدرآمد کا مرحلہ تھا جسے کوئی ’’پاگل‘‘ شخص ہی کرسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کو اس سلسلے میں سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا ہوگی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کا فکری اور دینی مرکز تھے انہیں قدرت کی جانب سے یہ شرف حاصل ہو ا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ ان کی قومیت سے تشریف لائے۔ عربوں ہی کی زبان کو اللہ رب العزت نے یہ شرف بخشا کہ اس میں عالم انسانیت کو قرآن کریم کی شکل میں خطاب کیا۔ تمام دنیا کی قوموں کو یہ پیغام پہنچانے کا کام شروع میں ان کے ذمے تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی عربوں میں تسائل آیا اور تیل کی دولت نے انہیں بالکل ہی اخلاقی اور فکری طور پر ناکارہ کردیا ۔یہی وہ جرم ہیں جن کا خمیازہ عرب بھگت رہے ہیں اور آگے بھی یہی صورتحال ہے۔ ان حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ عرب اور غیر عرب مسلم حکومتوں کی جانب سے زبانی کلامی مذمت کا سلسلہ جاری ہے مگر عالمی صہیونی دجالی قوتوں کو اس کا طویل تجربہ ہے کہ عملا مسلمانوں میں ردعمل دینے کے لیے قوت نہیں ہے۔

حالات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عالمی صہیونی دجالی قوتوں نے تین محاذ سے مسلمانوں کے خلاف پیش قدمی کی ہے یہ تین محاذ، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی محاذہیں۔ سیاسی طور پر ایسی قوتوں کو مسلمانوں کے اقتدار پر مسلط کروایا جو فکری طور پر اپنی ذات یا اپنے اقتدار سے آگے دیکھنے کے پابند نہیں تھے یہ سیاسی حکمران ہوں یا عسکری تمام کے تمام اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک اور ملت کو انتشار کی سولی پر لٹکاتے رہے۔ اس کے بعد فکری محاذ ہے جس کے لیے مسلمان حکمرانوں کے اندر یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اگر صحیح اسلام مکمل طور پر نافذ ہوگیا تو ان کے شخصی اقتدار سب سے پہلے اس کی زد میں آئیں گے یہی وجہ ہے کہ نفاذ اسلام کی تحریکوں کو ہر جگہ پوری قوت سے کچلا گیا۔ تیسرا محاذ اقتصادی تھا جس کے ذریعے عالمی دجالی ساہوکاری نظام کے تحت دنیا کی معاشیات کو کنٹرول کیا گیا اور قرضوں کی شکل میں بلیک میلنگ کا طویل سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ دیوالیہ ہونے کا خوف ان حکمرانوں پر ہمیشہ مسلط رہے۔

جس طرح عالمی ریاست کے اسٹیٹس کو امریکا منتقل کروانا برطانیا کی ذمہ داری تھی اسی طرح اب امریکا سے عالمی ریاست کے اسٹیٹس کو اسرائیل منتقل کرنا امریکا کی ذمہ داری ہے اسی سلسلے میں پہلے بڑے قدم کے طور پر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا شامل ہے ۔ پہلے فلسطینیوں کو دو ریاستی حل کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا اسی طرح اب باقی مسلم دنیا کو امریکی اقدام پر مختلف تاویلات پیش کی جارہی ہیں۔ فلسطینی ریاست کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گی۔ عرب حکمرانوں کو اقتدار کے معاملے میں اس قدر لاچار کردیا گیا ہے کہ بعض عرب ذرائع کے مطابق ٹرمپ کے اس اعلان سے پہلے بہت سے عرب دارالحکومت واشنگٹن اور تل ابیب کے رابطے میں تھے مذمتی بیانات محاذ قومی ذمہ داری کے طور پر داغے گئے ہیں اس کے بعد حکمرانوں کی حد تک خاموشی ہے لیکن عوام میں ایک بڑا لاوا پکنا شروع ہوچکا ہے۔ کسی عرب ملک میں اب اتنی قوت باقی نہیں ہے کہ جب اسرائیل انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرے کا نام لے کر اپنی حدود سے باہر نکلے گا تو کوئی اس کا مقامی طور پر راستہ روک سکے۔ روسی طویل عرصے سے بڑی جنگ کی تیاری میں ہیں اسی مقصد کے تحت روس نے اپنی فوج شام سے نکالنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اسرائیل عرب ممالک کے توانائی کے ذخائر پر قابض ہوکر دنیاوی امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے تمام مغربی ممالک نیٹو سمیت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جنگی طبل گذشتہ کئی برسوں سے پیٹا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں وطن عزیز کا سیاسی مافیا اپنی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے ملکی اداروں کو الجھائے ہوئے ہیں پاکستانی اداروں کے پاس عالمی تناظر میں وقت کم ہے۔ بڑے فیصلوں کا وقت سر پر آن کھڑا ہوا ہے اس لیے اس سیاسی مافیا کو جلد از جلد اس کے انجام تک پہنچاکر اپنے حقیقی محاذ کی جانب توجہ مبذول کرنا ہوگی۔ (ختم شد)