عافیہ صدیقی کا معاملہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب !

aafia-siddiqui

صدیوں پرانی بات ہے جب پاکستان کے جنم سے بہت پہلے اسی سرزمین پر ایک ’’عرب نوجوان لڑکی‘‘کی گرفتاری نے ’’ظالم حجاج بن یوسف‘‘کو اس قدر بے چین کردیا تھاکہ اس نے اپنی فوجوں کو محمد بن قاسمؒ کی اطاعت میں اس بات پر سختی سے پابند کردیا تھا کہ’’میری بیٹی‘‘کو ہر حال میں جیل سے نجات دلا کر راجہ داہر کو اس کے جرم کی پاداش میں انجام بد سے دوچار کردینا ۔اور ہاں کوئی آرام نہیں، کوئی پڑاؤ نہیں !اپنی بہن کو چھڑا کر اولین فرصت میں مجھے باخبر کردینا اور مشن میں کامیابی کے بعد میرے احکامات کا انتظار کرنا ۔ محمد بن قاسمؒ نے اپنی مسلمان بہن کو چھڑا کر اپنے گھر پہنچا کر نہ صرف حجاج بلکہ عالم اسلام اور ان سب سے برتر و اعلیٰ اپنے رب کو خوش کردیا ۔اللہ کی کریمی بھی بے مثال ہے یہ واقعہ جہاں پیش آیا وہاں آج سرزمین پاکستان پورے آب و تاب کے ساتھ قائم ہے ۔پاکستان کے لوگ اگر یہ دعویٰ کریں کہ ہماری سرزمین بر صغیر کے لئے نہ صرف ’’باب الاسلام ‘‘ہے بلکہ بہو بیٹیوں کی عفت و عصمت کے حفاظت کی روشن تاریخ کا اولین باب بھی یہی سے رقم ہوا ہے تو بے جا نہیں ہوگا ۔

اس روشن اور مثالی تاریخ کے باوجود’’ پاکستان کی نامی فوج کے بدنام جنرل ‘‘پرویز مشرف کے دور میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان ،القاعدہ اور اسلام پسندوں کے علاوہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا ،یا گرفتار کر کے درجنوں عقوبت خانوں میں پہنچا دیا۔امریکانے بیک وقت خوف اور ڈالروں کی لالچ کا کھیل کھیلا ۔یہاں تک کہ پاکستان کے متعلق خود امریکی اداروں نے یہ خوف ناک انکشاف کردیا کہ ’’طالبان اور القاعدہ‘‘والوں کی میدان میں ناممکن گرفتاری کے بعد ڈالروں کے عوض عام انسانوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچنے کا کاروبار عروج پر پہنچا ۔انہی بد نصیبوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ایک تھی ۔امریکیوں کی شکایتوں کا مشرف اینڈ کمپنی نے احترام کرنا اپنے لئے ایسا ناقابل انکار فرض مان لیا تھا کہ ادھر کسی افسر نے شکایت پہنچائی، اُدھر بلا توقف پاکستانی ادارے اس غریب پر قیامت ڈھانے پہنچ گئے نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ کب کون کہاں مرا کسی کو کچھ خبر نہیں ۔اس کا ردعمل صرف پاکستان ہی بھگت رہا ہے اور امریکا ساتھ چھوڑ کر بھارت کی جھولی میں ’’کامل خلوص‘‘کے ساتھ جا گرا ہے ۔یہ کام مشرف اور چند ضمیر فروشوں کا تھا مگر ’’بد اعتمادی ‘‘پاکستان کا ایسا حصہ بن گئی کہ شاید ہی مستقبل میں کوئی اسلام پسند اس پر بھروسہ کرے گا ۔

پاکستانی سیاسی حکمرانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ امریکا تو درکنار بھارت جیسے سماجی طور پر منتشر ملک کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں

ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے بچوں سمیت کراچی سے اسلام آباد آتے ہو ئے لا پتہ ہوگئی ۔والدہ کو’’ بہادراداروں ‘‘نے چپ سادھ لینے کا مشورہ دیا حتیٰ کہ وہ روتے روتے کئی بار موت کے منہ میں جا پہنچی ۔ایک دن اچانک’’ معظم بیگ نے سمیع اللہ ملک صاحب کے تعاون سے اس بات کا انکشاف کیا کہ افغانستان کے بگرام ائیر بیس پر قید قیدی نمبر 650عافیہ صدیقی ہے ،جہاں امریکی ’’حیوان نما سپاہی‘‘اس کے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ اپنا رہے ہیں ۔یو آنے ریڈلی اس میں قدم قدم پر ساتھ رہیں یہاں تک کہ ساری دنیا کے سامنے یہ بات آگئی کہ کئی برس قبل کراچی سے اسلام آباد جاتے ہو ئے اغواہو کر امریکیوں کے ہاتھوں فروخت ہونے والی کوئی اور نہیں عافیہ صدیقی تھیں ۔افغانستان میں امریکیوں نے گرفتاری کا ایسا بیہودہ ڈرامہ رچایا کہ ساری دنیا اس شرمناک کارروائی پر تڑپ اٹھی پر امریکا بہادر سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔عافیہ کو امریکاپہنچا دیا گیا ۔عدالت میں مقدمہ چلا جہاں اسی برس کی سزا سنائی گئی ۔تب سے لیکر آج تک ’’زخموں اور صدمات سے چور وجود‘‘کے ساتھ نحیف ،بیمار اور لاغر عافیہ دیار غیر میں اپنی بے گناہی کی سزا کاٹ رہی ہے ۔اس کو فروخت کرنے والا مشرف پورے پروٹوکول اور اعزاز کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک امریکا سے انسانی خون اور عزت پر کمائی ہوئی دولت سے لطف اندوز اور محظوظ ہو رہا ہے۔

عافیہ صدیقی کی بد نصیبی یہ ہے کہ حکمرانوں کو اس کی رہائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کام بغیر گہری حکومتی دلچسپی کے ہو ہی نہیں سکتا ہے۔اس لئے کہ یہ معاملہ کسی مسلمان ملک کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے’’ بدترین مجسمہ شر ودجالِ دورِحاضر‘‘کے ہاتھ میں ہے اور اس کے منہ کو عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے ۔اس کے نزدیک کسی مسلمان بیٹی کے ساتھ جیلوں میں عصمت ریزی کوئی بڑی بات نہیں ہے جیسا کہ دنیا نے عراق اور افغانستان میں دیکھ لیاہے ۔خود عافیہ کے متعلق تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود عصمت ریزی کی روح فرسا خبریں کئی بار میڈیا میں آچکی ہیں ۔اس کے گھر میں اس کی نحیف والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی دہائیاں دیتے دیتے تھک چکی ہیں ۔ابتداء میں عمران خان اس ایشوپر بہت چیختا چلاتا رہا مگر پھر اچانک اس کو سانپ سونگھ گیا اور اب اس کی پوری ’’اسلامی فلاحی ریاست کے لئے بیتاب ماڈرن ٹیم‘‘میں بھی کوئی فرد اس مسئلے پر بات نہیں کرتا ہے ۔پیپلز پارٹی سے کوئی امید نہیں ۔نواز شریف سے متعلق ابتداء میں امیدیں تو تھیں مگر اب ان کے حوالے سے تمام تر ’’خوش فہمیاں ‘‘بھی ختم ہو چکی ہیں ۔لے دے کے نگاہیں پاکستان کی مذہبی جماعتوں پر جا کر ٹکتی ہیں مگر ان میں اکثر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بیان بازیوں سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے ہیں ۔زیادہ سے زیادہ سال بھر میں ان کے گھر(کراچی) جا کر دو میٹھے بول اور سوشل میڈیا پر چند ایک تصاویر اور معاملہ اگلی ملاقات تک ختم ۔حیرت یہ کہ اب بعض لوگ سال میں صرف ایک مرتبہ عافیہ کی رہائی کے لئے ایک دن مذہبی تہواروں کی طرح منا کر حق ادا کرتے ہیں ۔

مجھے اندیشہ ہے کہ31مارچ 2003ء کا یہ المناک دن جس میں مسلمانوں کی ایک مظلوم بیٹی گرفتار کر کے ڈالروں کے عوض اپنے معصوم بچوں سمیت امریکاکے ہاتھوں بیچ دی گئی پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین باب ہی نہ بن جائے اس لئے کہ عافیہ صدیقی عرصہ دراز سے مختلف خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہے ۔امریکیوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ان کے جیل میں عافیہ خدانخواستہ مر جاتی ہے یا پاگل ہو جاتی ہے یا جیل میں وحشی عملے کے ہاتھوں باربار توہین و تحقیر کی نشانہ بنتی رہتی ہے۔امریکا کے بے رحم سراغرساں اداروں کے ظالم ذمہ داروں کو اس طرح کی خبروں سے فرحت و مسرت محسوس ہوتی ہے اور یہ لوگ عافیہ سے متعلق باربار جان بوجھ کر وفات پانے کی خبریں پھیلا کر مسلمانوں کا ردعمل جانچناچاہتے ہیں ۔بے غیرتی کی آخری حد یہ کہ جب بھی اس طرح کی کوئی جھوٹی روح فرسا خبر پھیلتی ہے تو اسے لوگ برداشت کر لیتے ہیں ۔ حکومت پاکستان کو بالعموم اور دینی تنظیموں کو بالخصوص اس بات پر غور کر ناچاہیے کہ اگر ’’عافیہ صدیقی‘‘امریکی جیل میں رہائی سے پہلے ہی مر گئی تو پھر اس ذلت و رسوائی کا داغ آپ کروڑ نیکیاں کر کے بھی دھونہیں سکتے ہیں ۔یہ سانحہ پاکستان کی تاریخ پر گہرا نقش ثبت کر ے گا اور آپ کو اپنی نئی معصوم نسلوں سے آنکھیں ملانا مشکل ہو جائے گا ۔تاریخ کا بے رحم قلم پاکستان کی تاریخ کا وہ تصور ہی مسخ کردے گا جس میں اب تک یہ بات جلی حروف سے لکھی ہوئی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ایک قلعہ ہے۔

سگی بہنوں سے بھی پیاری عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے حال ہی میں پاکستانی فوج کے سپاہ سالارِ اعلیٰ سے ایک پریس کانفرنس میں اس المیہ کو حل کرنے کے لئے براہ راست دلچسپی لینے کی اپیل کر کے بدیر ہی صحیح ایک اچھا کام ضرور کیا ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی حکمرانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ امریکا تو درکنار بھارت جیسے سماجی طور پر منتشر ملک کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔جنرل صاحب کے گزشتہ امریکی دورے کے بعد حوصلہ افزا ء خبریں آئیں تھیں کہ انھوں نے امریکیوں سے صاف صاف کہ دیا کہ ہم نے جو کرنا تھا کر لیا بلکہ آپ سے بھی سو گنا زیادہ کیا، اب ہمیں آپ کے ’’ڈو مور ‘‘کا انتظارہے ۔اللہ کرے کہ فوزیہ صدیقی کی درد بھری اپیل جنرل صاحب کے دل کو پسیج دے اور وہ براہ راست دلچسپی لیکر تاریخ پاکستان کے اوپر لگنے والے سیاہ دھبے کو اپنی کوششوں سے دھو کر عافیہ صدیقی کی رہائی کا قابل فخر کارنامہ اپنے نام درج کر لیں ۔یقیناََ وہ شخص پاکستان کی تاریخ میں قابل احترام مقام پا لے گا جو عافیہ کی رہائی ممکن بنا ئے گا ۔اس شخص کو ملت اسلامیہ کا لیڈر اور رہنما کہلانے کا کوئی حق نہیں جو مسائل کے حل میں رکاوٹوں کا دن رات رونا روئے ۔رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے خلوص ،لگن ،محبت اور جذبہ للٰہیت کے ساتھ میدان میں اتر کر ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے ۔کیا کسی بھی مسلمان رہنما ،جس کا اسلامی تاریخ میں نام روشن ہے ،کے لئے میدان ہموار اور رکاوٹوں کے بغیر تھا ؟صلاح الدین ایوبی ہو یا نورالدین زنگی اور محمد بن قاسم کیا انھیں رکاٹوں کے بغیر یہ نام اور عزت نصیب ہوئی ہے ؟۔دنیا کے لوگ اگر فی المثل واہ واہ نہ بھی کریں تو کیا کسی کا عوام سے پوشیدہ عمل اللہ سے بھی چھپا رہ سکتا ہے ؟ ایک مسلمان بیٹی کے لئے کل ’’تڑپنے والاظالم حجاج ‘‘کا یہ کارنامہ آج بھی اندرہی اندر خوشی دوڑا دیتا ہے کیا عافیہ کے لئے تڑپنے والا حاکم کل اللہ کے دربار میں اسی ایک واقعہ سے سرخرو نہیں ہو سکتا ہے ؟جو اللہ ’’پیاسے کتے ‘‘کو پانی پلانے والے شخص پر صرف اسی ایک عمل سے مہربان ہو سکتا ہے وہ عافیہ جیسی پاکیزہ روح کو وحشی درندوں کے جہنم سے نکال کر اپنے گھر واپس لانے والے سے کس قدر خوش ہوگا؟؟؟