صحافت اپنا قبلہ درست کرے، ورنہ آزادی تو دور غلامی بھی ڈھنگ کی نہ ملے گی

پاکستان میں آزاد اور ذمہ دارانہ صحافت بہت تیزی سے روبہ زوال ہے۔ نئے نئے ابلاغی اداروں نے اس مقدس پیشے کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے طاقت وروں اور سیاسی جماعتوں کے نوکروں کی طرح کارگزار ہیں۔ اینکرز اور تجزیہ کار واضح تعصبات کے شکار ہیں۔ سیاسی کارکنان کی طرح صحافتی اداروں کے وابستگان اپنی چَھب دکھلاتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت کبھی اتنی ابتر، کہتر اور بدتر حالت میں دکھائی نہیں دی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ صحافتی اداروں کی باہمی چپقلش سیاسی جماعتوں اور طاقت ور لوگوں کے آگے آزادی صحافت کی قدروقیمت سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔عمران خان کے دور حکومت میں جو اینکرز، تجزیہ کار اور وقائع نگار حکومت کے دباؤ میں تھے، وہ آج تحریک انصاف کے حامی صحافتی حلقوں کے لیے دباؤ پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ دونوں حلقے جانتے ہیں کہ یہ تقسیم دراصل طاقت کے مخصوص کھیل میں بپا ہوئی اور جن کی بظاہرحمایت اور مخالفت کی جارہی ہے، وہ نہ تب اور اب ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود طاقت کے آگے سجدہ ریز بے آبرو صحافت حریف و حلیف کی عامیانہ تقسیم میں رہ کر اس مکروہ کھیل میں خوش ہے۔ یہ صحافت کا اپنی زندگی سے دستبرداری کا واضح اشارہ ہے۔ صحافت کے معروضی تقاضے ذاتی پسند وناپسند سے اُٹھ کر ہی پورے کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح جو آزادی حریف کو مہیا نہ ہوگی، وہ حالات تبدیل ہونے کے بعد دوسرے کو بھی میسر نہ رہ سکے گی۔لہذا اپنے مقابل کے لیے کہنے کی آزادی کا حق تسلیم کرکے ہی اپنے لیے آزادی اظہار کا حق محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ مگر پاکستان میں صحافت نے کسی اُصولی روش کے بغیر ہی اپنے دوست اور دشمن بنالیے ہیں۔جس سے اس کا چہرہ اور کردار دونوں ہی مسخ ہو گئے ہیں۔ آزادی صحافت یہاں اپنے اپنے بتوں کی پرستش کا نام ہے۔ وہی آزادی بامعنی اور بااعتبار ہوتی ہے جو ہر ایک کے لیے یکساں ہو، اگر کوئی اپنے مخالف کے آزادی اظہار پر قدغن کو قبول کرتا ہے تو وہ اپنے حق آزادی کو برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ کیونکہ دور بدلنے سے وہ بھی اس قدغن کا شکار ہوگا۔ جو لوگ لانگ مارچ کی براہ راست کوریج پر پابندی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں، کل وہ ایسی ہی پابندیوں کے شکار ہوں گے، جب پیمرا اُن کے خلاف بھی یہ کارروائیاں کر رہا ہوگا۔ سن لین تحریک انصاف کے دور میں اے آر وائی نے جیو پر پابندیوں کو خوشی خوشی قبول کیا تھا، آج وہ دباؤ کا شکار ہے۔ کل تحریک انصاف نے ن لیگ کے لیے راستے بند کیے تھے، آج اس کے لیے بند ہو رہے ہیں۔ یہ دور بھی گزر جائے گا۔ مگر آج اے آر وائی پر پڑنے والے دباؤ پر خوش ہونے والے کل اپنے ساتھ اسی سلوک پر دوسروں کو بغلیں بجاتے ہوئے پائیں گے اور کل تحریک انصاف کے لیے اچھے دن شروع ہوئے اور وہ ان جماعتوں کو رگڑنے لگے گی تو یہ جماعتیں اس کا جواز اپنے ہی اقدامات میں ڈھونڈنے پر مجبور ہوگی، اس لیے اُصولی موقف کو گروہوں سے بلند کریں۔ اپنی آزادی کی حفاظت کرنا ہے تو دوسرے کی آزادی کا حق تسلیم کریں۔ پیمرا کی پابندیوں کے خلاف یکساں آواز بلند کریں، اس کے باوجود کہ آپ لانگ مارچ کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستانی صحافت نے اپنا کردار، رویہ اور روش کو حمایت و مخالفت کے روایتی دائروں سے آزاد نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب سب ایک جیسی غلامی کے شکار ہو جائیں گے، اور تب پچھتاوے کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہ لگے گا۔