ستمبر رائے ونڈ مارچ حکومت کی’’نرم پالیسی‘‘ نے ستمگری کم کردی

imran-khan

تحریک انصاف کے30ستمبر کو ہونے والے رائے ونڈ مارچ کے خلاف مسلم لیگ (ن) جس طرح مقابلے کاتاثر دے رہی تھی اب اس پالیسی میں اچانک تبدیلی کو سیاسی حلقوں کی جانب سے یوٹرن کہا جارہا ہے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا 14 اگست 2014ء کو لاہور سے شروع ہونے والے مارچ کے بارے میں مسلم لیگ(ن) نے کیا تھا ،پہلے بڑھکیں ماری گئیں اورپھر گوجرانوالہ میں جھڑپیں سامنے آئیں لیکن اسلام آباد پہنچنے تک حالات ایسے بدلے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری دھرنے کے شرکاء کیلئے ناشتہ لے کر پہنچ گئے تھے‘ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار اوروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی ملاقات کے نتیجے میں برسراقتدار جماعت نے اپنی پالیسی نرم کرنے کافیصلہ کیا۔ اس سے ایک طرف تو یہ ہوا ہے کہ ستمبر کے آخری دن سیاسی کشیدگی جس عروج پر جانے کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے وہ اب کم ہوگئے ہیں‘ حکومت کی جانب سے جس ’’نرم‘‘ پالیسی کا اعلان کیاگیا ہے اگر وہ اس پرکاربند رہتی ہے تو یہ طے ہے کہ ستمبر کی ستمگری کم ہوجائے گی۔

مسلم لیگ (ن) کی اس پالیسی کو سیاسی حلقوں میں سراہا جارہا ہے اس سے پہلے ڈنڈا فورس کے قیام پر تمام ہی سیاسی جماعتوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جمہوری نظام میں اپوزیشن جماعتوں کو ملک اور سیاسی مسائل پر احتجاج کرنے‘ جلسے جلوس نکالنے کا آئین اور جمہوری حق حاصل ہے اور اس اقدام کو جمہوریت کی روح بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کی سیاس ریت ہی نرالی ہے۔ جہاں نہ جمہوری حق سیاسی محاذ آرائی اور ذاتی مخالفت میں تبدیل ہوتارہا ہے آج ہی نہیں، ماضی میں بھی محترمہ بینظیربھٹو ‘ میاں محمدنوازشریف اور دوسرے سیاستدانوں نے احتجاجی مظاہرے اور ایک دوسرے کے خلاف عوامی مارچ کئے ہیں تاہم اس وقت سیاسی لڑائی سیاسی تلخیوں میں تبدیل ہوتی جارہی ہے جس کے بارے میں محب وطن حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس خدشے کا اظہار بھی کیاگیا ہے کہیں اس کھیل میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کونقصان نہ ہوجائے۔

پاکستان تحریک انصاف گزشتہ تین سال سے موجودہ حکومت کے خلاف صف آرا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلم لیگ ن اور حکمرانوں کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے مگر دوسری طرف اس کا اپنا یہ حال ہے کہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پے درپے شکست سے دوچارہورہی ہے۔ جہلم کے NA-162 میں بھی شکست اس کا مقدر ٹھہری ہے۔ مسلم لیگی حلقے اس بنیاد پر الزام لگاتے ہیں دھرنوں اور احتجاج سے پنجاب کے ترقیاتی منصوبے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔اس لئے تحریک انصاف پنجاب کے عوام کی توجہ حاصل نہیں کرپارہی ہے۔