پاکستان بڑی سیاسی تبدیلیوں کے نرغے میں

nawaz-zardari-fazl

خالق کائنات کا ہمیشہ سے ایک عجیب طریقہ کار رہا ہے کہ وہ آفاقی معاملات کو منتشر نقطوں میں بکھیر کر اپنے بندوں کوان کے ادراک کی دعوت دیتا ہے۔ان نقطوں کو یکجا کرکے حقائق کی ایک تصویر بنا لینا اتنا آسان کام نہیں ہوتابلکہ اس کے لئے طویل مشق اور باقاعدہ طریقہ کار یا Proper Methodologyاختیار کرنا پڑتی ہے۔ اس سے ہٹ کر معاملات کی آگاہی میں انسان صرف بھٹک سکتا ہے لیکن راہ نہیں پاسکتا۔ یہ طریقہ کار رموز کائنات سے لیکر زمین پر ہوتے سیاسی، سماجی اور تہذیبی معاملات میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پرفی زمانہ عالمی سطح پردنیا کے سردو گرم پر حاوی امریکا کے حوالے سے اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہوگا تو اس کا ادراک آنے والے انتخابات سے ایک برس قبل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے آپ کو صحیح ’’طریقہ کار‘‘ اختیار کرنا ہوگا۔ مثلا امریکی انتخابات سے ایک برس قبل تک کے عالمی حالات کے تناظر میں امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے رجحانات، اس دوران عالمی سطح پراس کی دوستی اور دشمنی کے تقاضے ، داخلی اور خارجی سطح پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بدلتی ترجیحات اور پھر دونوں امریکی جماعتوں کے صدارتی امیدواروں کے منشور کو سامنے رکھ لیں تو نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا اورتقریبا ایک برس بعد وائٹ ہاوس میں لگنے والی نئی تصویر واضح نظر آنا شروع ہوجائے گی۔۔۔

مشرف دور میں لیے جانے والے یوٹرن نے جس طرح اس ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اب ان مڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے بھی ایک اور یوٹرن کا وقت آگیا ہے۔

بکھرے نقاط یاScattered points کی یہی کہانی آجکل وطن عزیزکے سیاسی اسٹیج پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جس کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی جوہری تبدیلیوں کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔ عالمی سیسہ گروں کے مفادات نے خطے کو جن حالات سے دوچار کردیا ہے، اس میں پاکستان بھی تیزی سے تبدیلی کے دھارے میں شامل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب ان ’’بکھرے نقاط‘‘ کی جانب آجائیں۔۔۔ نواز لیگ کی حد تک آف شور کمپنیوں کا معاملہ اور اس میں پاکستانی حکمران خاندان کی مالیاتی بدعنوانیاں کا عیاں ہوجاناکسی داخلی کوشش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ قدرتی طور پر ایک عالمی کھیل کے تناظر میں اچانک سامنے آیا ہے جس میں پاکستان کا حکمران خاندان بھی بے نقاب ہوگیا، دوسرے ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں سے قصاص کا مطالبہ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کا ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کی حمایت کرنا اور سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ نون لیگ کے نصف سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران اسمبلی سے غیر حاضر ہوجانا کسی نوشتہ دیوار سے کم نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ نصف سے زیادہ نون لیگی ارکان قاف لیگ کی تاریخ دھرانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔۔ان حالات کے پیش نظر وزیر اطلاعات پرویز رشید کی جانب سے خورشید شاہ کے گھٹنے چھو کر ’’گھٹنہ ڈپلومیسی‘‘ کا آغاز کیا گیا لیکن یہ بھی بے سود ثابت ہوا۔یہ معاملات کا ایک رخ ہے۔

انہی معاملات کا دوسرا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے۔زرداری گروپ ایک بین الاقوامی بندوبست کے تحت پانچ برس پاکستان پر حکومت کے نام پر اس قوم کا تیل نکال گیا۔جب اس بندوبست کے تحت نواز لیگ کی باری آئی تو آپریشن ضرب عضب کے دوران عسکری دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیاجس میں پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو بھی پکڑا گیا ، اس دوران لیاری میں دہشت گردی کا بازار گرم کردینے والے اور سیاسی حکمرانوں کے کٹھ پتلی عزیربلوچ کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا اور اس کے بعد کراچی فشری کے سابق چیئرمین اور پی پی کے سینئر لیڈرڈاکٹر نثار مورائی کی گرفتاری اور ریمانڈ۔ اسے چور کی داڑھی میں تنکا کہا جائے یا آنے والے ’’خطرات‘‘ کی چاپ کہ آصف زرداری نے اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کو سخت زبان میں للکاربیٹھے، انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ آپریشن ضرب عضب کے نام پر پیپلز پارٹی کو پھر کھڈے لائن لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی پانچ سالہ ’’کارکردگی‘‘ پر بھی ہاتھ پڑھنے والا ہے۔ موصوف کو شاید یہ بھی غلط فہمی تھی کہ امریکا اور برطانیا پر مشتمل عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی اداروں کے خلاف ان کی پیٹھ ٹھونکے گی لیکن وہ شاید بھول گئے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اپنے لئے کام کا معاوضہ اپنی جیب سے ادا نہیں کرتی بلکہ جس ملک میں دباؤ کے تحت ایسے ’’ سیٹ اپ‘‘ ترتیب دیتی ہے وہاں کے عوام اور قومی دولت کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ موصوف نے اس ترنگ میں اسلام آباد میں تو بڑھک لگا دی لیکن جب پیچھے مڑکر دیکھا تو دور دور تک کوئی نہ تھا وہ دن اور آج کا دن موصوف دبئی، لندن اور واشنگٹن کے درمیان چھلانگیں لگاتے پھر رہے ہیں۔ آصف زرداری اس بات سے خوب واقف ہیں کہ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے اعترافی بیانات اور ان کی گھنٹوں پر محیط ریکارڈنگ نے ان کا اور ان کے دیگر پارٹی دوستوں اور عزیزوں کا جو بھانڈہ پھوڑا ہے وہی زرداری گروپ کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کردینے کے لئے کافی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری کی شکل میں پیپلز پارٹی کی نئی جتھے بندی کی جارہی ہے لیکن یہ آنے والے وقت میں زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوگی۔

ملکی سیاسی صورتحال کا تیسرا رخ ایم کیو ایم ہے جو اس وقت پوری طرح حالت نزاع میں ہے۔ کراچی میں اس کے طاقت کی بنیاد پرموجود مینڈیٹ سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک اس جماعت کی ’’ایکسپائری ڈیٹ‘‘ اب قریب ہے جس کی سب سے بڑی وجہ الطاف حسین کی حد سے زیادہ خود اعتمادی تھی جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچ گئے، نفسیاتی طور پر ’’متبادل‘‘ کا خوف اس قدر طاری تھا کہ کسی کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہا تھایہی وہ خوف تھا جس کی وجہ سے ان کے بین الاقوامی ’’ذمہ داران‘‘ بھی پریشان ہوگئے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات نے آگ پر تیل کا کام دیاجس کے نتائج دیوار پر لکھے نظر آرہے ہیں۔۔۔ ذرائع کے مطابق کراچی کے امور پر متحدہ کی گرفت تیزی کے ساتھ ڈھیلی پڑتی جارہی ہے اوربین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے کیونکہ ’’پاک سرزمین ‘‘ پارٹی کی جانب سے متحدہ کے بنیادی ڈھانچے پر سخت ضرب لگ چکی ہے۔ برطانیا کی جانب سے متحدہ کی پشت پناہی بھی آہستہ آہستہ دم توڑ جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ آنے والے خطرات کے تحت متحدہ کی لندن میں موجود قیادت نے اپنے سیاسی امور لندن کی بجائے امریکا سے چلانے پر غور شروع کردیا تھا لیکن اگر آئندہ عام انتخابات میں سندھ سے پاک سرزمین پارٹی نصف سے کم بھی متحدہ کی سیٹوں پر قابض ہوگی تو امریکی بھی متحدہ کے مستقبل کے بارے میں نا امید ہوجائیں گے۔ذرائع کے مطابق دبئی سے لیکر جنوبی افریقا تک متحدہ کا سارا نیٹ ورک بُری طرح اُدھڑ چکا ہے۔ دبئی انتظامیہ نے وہاں روپوش متحدہ کے بے شمار ارکا ن کو پہلے اپنی واچ لسٹ میں رکھا اس کے بعد پاکستانی اداروں کے تعاون سے انہیں وہاں سے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جانے لگا اس صورتحال نے بھی لندن اور دنیا کے دیگر حصوں میں متحدہ کی صفوں میں ایک بھگدڑ مچادی ہے۔

حکمران جماعت کے پاس صرف ایک آپشن بچے گا کہ وہ نواز شریف کی جگہ کسی اور پارٹی عہدیدار کو پارٹی کی سربراہی سونپ دے۔ لیکن اس سلسلے میں نواز شریف شہباز شریف کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

اب ان تمام معاملات کو ہم نظر میں رکھ کر ملک کی مجموعی صورتحال کی جانب لوٹتے ہیں تو بہت سے ’’بکھرے نقاط‘‘ مل کر ایک ایسی کہانی سناتے نظر آتے ہیں جس کے بارے میں ماضی قریب میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ صاف لگ رہا ہے کہ مشرف دور میں لیے جانے والے یوٹرن نے جس طرح اس ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اب ان مڑے ہوئے معاملات کو سیدھا کرنے کے لئے بھی ایک اور یوٹرن کا وقت آگیا ہے۔ معاشی دہشت گردی کے خلاف اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں کرپٹ سیاستدانوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ’’جمہوریت کو خطرہ ہے‘‘ کا راگ الاپنا شروع کردیا تھالیکن درحقیقت یہ جمہوریت کو نہیں بلکہ خود ان کی بدعنوانیوں کو لاحق خطرات کا بین تھا۔ یہی وہ حالات ہیں جب ملک کے وزیر اعظم نے حکومت کو اپنے بچوں کے حوالے کیا اور لندن میں آپریشن کی غرض سے منتقل ہوئے لیکن اب جو صورتحال عیدالفطر کے بعد واضح ہوتی نظر آرہی ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات کس طرف جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے قصاص کا مطالبہ ان کی بے لچک پالیسی کا غماز ہے۔ اگر عید الفطرکے بعد بوزیر اعظم پاکستان کے واپس آتے ہی پاناما لیکس کا معاملہ بھی پوری قوت کے ساتھ سر اٹھائے گا ۔ اس لئے واضح الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت کے پاس صرف ایک آپشن بچے گا کہ وہ نواز شریف کی جگہ کسی اور پارٹی عہدیدار کو پارٹی کی سربراہی سونپ دے۔ لیکن اس سلسلے میں نواز شریف شہباز شریف کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے یہی ایک بڑی وجہ آنے والے وقت میں سب سے پہلے حکمران خاندان کے اندرتقسیم کا سبب بن جائے گی ۔۔۔حکمران جماعت کے پاس جو آخری پتہ رہ جائے گا وہ ’’عوام‘‘ ہوں گے (یعنی قبل از وقت انتخابات)نواز شریف کسی طور بھی ان ہاوس تبدیلی پر راضی نہیں ہیں۔

حالات کا سیناریو بتاتا ہے کہ زرداری صاحب کی سیاست ختم ہوچکی خود پیپلز پارٹی کے بعض حلقے خاموشی سے زرداری کو پی پی کے موجودہ سیاسی زوال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اس لئے پیپلز پارٹی سے ’’زرداری مائنس ‘‘کا تقریبا فیصلہ ہوچکا یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری کو بے نظیر کا سیاسی جانشین بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ایسے جن کی مانند تھی جس کی جان صرف الطاف حسین کے اندر ہے الطاف کے ساتھ یہ جن بھی ہوا میں تحلیل ہونے کے قریب پہنچ چکا۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ کے سیاسی خلا کو پورا کرنے کے لئے پاک سرزمین پارٹی کا قیام پہلے ہی عمل میں لایا جاچکا ہے۔

جس خاموشی سے مولانا فضل الرحمان لندن پہنچے تھے اس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ مولانا واپس آگئے اور تاحال سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہیں۔

اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ دلچسپ کردار مولانا فضل الرحمن کا رہا ہے۔ موصوف نے ایک مرتبہ حکومت اور متحدہ کے پھڈے میں لات اڑاتے ہوئے نائن زیرو کی زیارت کا شرف حاصل کیا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ ان کا سیاسی میدان ہی نہیں ہے۔ اسی لئے مولانا جس تیزی کے ساتھ متحدہ اور نون لیگ کے درمیان پل بننے آئے تھے اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ واپس ہوگئے۔ دوسری مرتبہ مولانا کا ’’ظہور‘‘ اس وقت ہوا جب نواز زرداری مفاہمت اور ملاقات کے امکانات کا معاملہ سامنے آیا اور میاں صاحب کے خرچے پر مولانا صاحب لندن یاترا کے دوران آصف زرداری کے پہلو میں مسکراتے پائے گئے لیکن یہاں بھی انہیں جلدی احساس ہوگیا کہ انہیں بھیجا نہیں بلکہ دھکا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس خاموشی سے مولانا لندن پہنچے تھے اس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ مولانا واپس آگئے اور تاحال سیاسی منظر نامے سے لاپتہ ہیں۔ غالبا انہیں احساس ہوگیا کہ عید الفطر کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہونے کیا جارہا ہے۔۔۔ کسی نے انہیں غالبا بتا دیا ہے کہ پہلے تو مائنس ون کی بات سنا کرتے تھے اب تو شایدوطن عزیز کو ’’مائنس تھری‘‘ کا مرحلہ درپیش ہوچکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے ہمسایوں کے ہاتھوں اور اپنے سیاستدانوں کی وجہ سے آج جس مقام پر کھڑا ہے اگر بے رحم احتساب نہ کیا گیا تو اس کی قیمت سب کو ادا کرنا پڑ جائے گی۔ آنے والے منظر نامے میں 2018ء کے انتخابات کا دور دور تک کہیں نشان نظر نہیں آرہا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ کوئی ’’عبوری سیٹ اپ‘‘ ہی آئندہ انتخابات کا انعقاد کرائے گا جس میں موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر سیاستدان تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں گے ۔ پاک چین راہداری اس ملک کی معاشی شہ رگ بننے جارہی ہے جس پر پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں نے سمجھوتہ نہ کرنے کاعہد کرلیا ہے۔ افغانستان کی جانب سے امریکا نے طورخم بارڈر پر پاکستان کو جس امتحان میں ڈالنے کی کوشش کی تھی پاکستان الحمد ﷲ اس میں سرخرو ہوا ہے اسی قسم کی جارحانہ پالیسی سے کابل اور دہلی کو ان کی اوقات میں رکھا جاسکے گا۔۔۔