امریکا مجھے بے دخل نہیں کرے گا! فتح اللہ گولن کا امریکا پر اظہاراعتماد

fethullah-gulen

ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا اُنہیں ہرگز ترکی کے حوالے نہیں کرے گا۔اُن کے اپنے الفاظ اس ضمن میں یہ تھے کہ “امریکا ترکی کی جانب سے باضابطہ درخواست کے باوجود اُنہیں بے دخل نہیں کرے گا”۔ امریکا میں خود ساختہ جلاوطن فتح اللہ گولن کو امریکا پر یہ اعتماد کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دراصل اُن خفیہ روابط میں ملتا ہے جو اس خطے میں امریکا اپنے کھیل کے لیے فتح اللہ گولن کو استعمال کرکے رچاتا آیا ہے۔ مگر فتح اللہ گولن نے نیویارک میں العربیہ کے بیورو چیف طلال الحاج سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو اس آڑ میں چھپایا کہ”امریکا کی دنیا میں شہرت ایک ایسے ملک کی ہے جو قانون کی حکمرانی کی پاسداری کرتا ہے۔اس لیے مجھے اعتماد ہے کہ وہ مناسب طریق کار کی پیروی کریں گے”۔

واضح رہے کہ ترکی نے 16 اگست کو باضابطہ طور پر امریکا کو فتح اللہ گولن کو امریکا سے بے دخل کرکے ترکی کے حوالے کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔اس ضمن میں امریکا کے دورے پر جانے والے ترک پارلیمان کے ارکان اپنے ساتھ گولن کے خلاف ثبوتوں کے پچاسی بکسے لے کر گئے تھے۔ان میں ان کے ناکام فوجی بغاوت میں ملوّث ہونے کے شواہد ہیں۔ان ترک پارلیمینٹرینز نے امریکی محکمہ انصاف کے عہدے داروں سے ملاقات میں ثبوتوں کا یہ انبار پیش کیا تھا۔اس تناظر میں العربیہ نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا امریکا ترکی کے دباؤ میں آسکتا ہے تو گولن نے کہا:”یقیناً امریکی حکام کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھی دھوکے میں آجائیں۔اگرچہ فنی طور پر اس بات کا امکان موجود ہے لیکن میں کوئی نمایاں امکانی واقعہ رونما ہونے کا خیال نہیں کرتا”۔

امریکی محکمہ خارجہ کے علاقائی ترجمان نیتھانیل ٹیک نے قبل ازیں العربیہ انگلش سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ترک عالم کی کسی غلط کاری کو ثابت کرنے کے لیے مضبوط اور قابل اعتبار شہادت کی ضرورت ہوگی”۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ”اس مقصد کے لیے شواہد پر مبنی مخصوص دستاویز کی ضرورت ہے اور یہ دستاویز براہ راست ہمارے محکمہ انصاف کو موصول ہونی چاہیے۔اس کے بعد ہم امریکا کے وفاقی قانون اور بین الاقوامی قانون کے مطابق درخواست کا جائزہ لیں گے اور پھر ہم کسی فیصلے تک پہنچ سکیں گے”۔

فتح اللہ گولن نے اپنے انٹرویو میں ترکی کے اندر ایک نئے بدلاؤ پر پھر سے بات کرنے کی کوشش کی اور ممکنہ مستقبل کے منظرنامے پر بھی بات کی۔اُنہوں نے العربیہ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی وضاحت کچھ یوں کی کہ ”ترکی بیرونی تناظر میں مسلم دنیا میں اپنی بہت زیادہ ساکھ کھو چکا ہے۔اس کوشش اور اس کے بعد کیے جانے والے اقدامات کا کچھ فائدہ نہیں ہوا لیکن تطہیر کا عمل جاری ہے اور جب تک یہ جاری رہتا ہے وہ (ترک ارباب اقتدار) دنیا سے کسی قسم کی ہمدردی حاصل نہیں کرسکیں گے”۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ترکی میں جاری اس صورت حال کا کوئی حل بھی ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ” مزید تنہائی سے ملک اپنے ہمسایوں میں بھی الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا”۔اُنہوں نے مزید کہا کہ “جہاں تک صورت حال کے حل کا تعلق ہے تو میرے خیال میں جب ترکی کی تنہائی دنیا میں ایک خاص سطح پر پہنچ جائے گی اور جب نیٹو یا یورپی یونین کی جانب سے بعض اقدامات کیے جائیں گے تو شاید اس سے تصویر تبدیل ہوسکے یا انھیں جب اپنی ہی جماعت میں تقسیم کا تجربہ ہو اور جب جماعت کے اندر سے ہی کچھ لوگ جو کچھ رونما ہورہا ہے،اس کے خلاف بول پڑیں تو شاید وہ جبر واستبداد سے باز آ جائیں”۔

فتح اللہ گولن کےا س انٹرویو سے پوری طرح واضح ہے کہ وہ ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف عالمی مدد اس طرح مانگ رہے ہیں کہ ترکی کو الگ تھلگ کردیا جائے۔ نیز وہ نیٹو یا یورپی یونین سے بھی کچھ ترک مخالف اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ ترکی کی حکمران جماعت کے اندر بھی تقسیم کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن کا یہ طرز فکر دراصل اس امر کی وضاحت کے لیےکافی ہے کہ وہ عملاً ترکی کے اندر ایک دوسرا ملک بنارہے تھے۔ جس کے لیے اُنہیں امریکا کی پوری مدد حاصل تھی۔ فتح اللہ گولن 1999 سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اورترکی نے گولن پر ایک ناکام فوجی بغاوت کے ذریعے صدر طیب ایردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ہے۔