ڈنڈا بردار فورس بمقابلہ بلا بردار فورس، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف آمنے سامنے

pti-vs-pmln

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف جاری تحریک احتساب کے دوران میں ’’رائے ونڈمارچ ‘‘ کی اصطلاح نے بھر پور شہرت حاصل کی ہے۔ رائے ونڈ لاہور کے نواح میں آباد وہ علاقہ ہے جو پہلے صرف تبلیغی جماعت کے مرکز کے حوالے سے معروف تھا۔ بعد میں شریف فیملی نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے اپنی رہائش گاہیں رائے ونڈ کے زرعی فارم میں منتقل کر لیں جسے ’’جاتی عمراء ‘‘ کا نام دیا گیا۔

جاتی عمراء مشرقی پنجاب کا وہ گاؤں ہے جہاں شریف خاندان تقسیمِ ہند سے پہلے مقیم تھا۔ عمران خان کی جانب سے رائے ونڈ مارچ کی باتیں حکمرانوں اور ان کے حلیفوں سے ہضم نہیں ہو پا رہی ہیں۔ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے ایک ڈنڈا بردار فورس کی میڈیا کے سامنے رونمائی کروائی ہے جو ان کے بقول پی ٹی آئی کے رائے ونڈ مارچ کو روکنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اگلے ہی روز اسی شہر میں پی ٹی آئی کے جوانوں نے بلے لہرا کر مسلم لیگیوں کی ڈنڈا بردار فورس کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

پہلوانوں کے شہر کے نام سے مشہور گوجرانوالہ میں ردعمل کی سیاست کی معمولی سی جھلک قوم کے سامنے آئی ہے۔ پاکستانی سیاست اس صورتحال کی عادی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف رائے ونڈ مارچ کے نام سے جو کچھ کرنے جا رہی ہے یا کرنا چاہتی ہے وہ ہماری سیاست میں نیا نہیں ہے۔ جو لوگ آج رائے ونڈ مارچ کو غیر اخلاقی یا غیر سیاسی قرار دیتے نہیں تھکتے ماضی کے مختلف ادوار میں اسی قسم کی سرگر میاں اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکے ہیں۔ ابھی کل ہی بات ہے کہ مسلم لیگ ن نے لندن میں عمران خان کی سابقہ بیوی جمائما خان کی والدہ کے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے پہلے بے نظر بھٹو شہید کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں مسلم لیگ ن نے اُس وقت کے صدرِ مملکت فاروق احمد خان لغاری کے آبائی علاقے چوٹی زیریں ( ڈیرہ غازی خان ) میں لانگ مارچ کیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر صدر غلام اسحق خان کے خلاف ’’ گو بابا گو ‘‘ کے نعرے لگائے تھے جس کے جواب میں کئی سال بعد مسلم لیگ کی جانب سے پارلیمنٹ میں صدر لغاری کے خلاف ’’ گو لغاری گو ‘‘ کی نعرہ بازی ہوئی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف رائے ونڈ مارچ کے حوالے سے جس قدر پر جوش ہے حکمران جماعت اُسی قدر خوف زدہ دکھائی دیتی ہے۔ اپوزیشن نے رائے ونڈ مارچ میں عمران خان کی پارٹی کو اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ جسے کسی حد تک حکمرانوں کی کامیابی قراد دیا جا سکتا ہے لیکن حکمرانوں کی اس ظاہری کامیابی کے باوجود پی ٹی آئی کا گراف بلند ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے آنے والے دن پاکستانی سیاست میں ہلچل اور گرماگرمی کے حوالے سے اہم رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ستمبر کے آخری اور اکتوبر کے پہلے ہفتے میں حکمران جماعت اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے کارڈز کس طرح سے کھیلتے ہیں۔ تاہم اس وقت گیند حکومت کی کورٹ میں ہے اگر وہ تصادم اور ردِ عمل کی سیاست کا خاتمہ چاہتی ہے تو اُسے اپنے ترجمانوں کو گفتگو کے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا ہوگا۔