جنگ سے پہلے بھارتی شکست

modi-amit-shah

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے‘ لیکن اس سے قبل ہی بلوچستان سے بھارتی جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری سے سارے راز طشت ازبام ہوگئے‘ اس نے سیکورٹی اداروں کے سامنے سب کچھ اگل دیا۔ بھارت کا پروگرام تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں آپریشن کے ساتھ ہی سندھ‘ بلوچستان میں 27 دسمبر 2007 کا منظر ری پلے ہوجائے جب راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پورے سندھ میں آگ لگ گئی تھی۔ ریاست کی رٹ ختم ہوگئی تھی اور بھارتی ایجنٹوں نے کراچی سے کشمور تک پیٹرول پمپ‘ بینک‘ کارخانے اور گاڑیاں پھونک ڈالے تھے اور کئی دن تک آگ کے شعلے اٹھتے رہے تھے۔ اس ناکامی کے بعد مقبوضہ کشمیر کے ’’اڑی فوجی کیمپ‘‘ پر حملے کا ڈرامہ رچایا گیا‘ بھارتی حکومت نے اپنی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن کیلئے تیار کیا۔ بھارتی حکومت کو انڈین فوج کی جانب سے مثبت جواب ملا لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ کشمیر میں حریت پسندوں کے کیمپوں پر حملے کے بعد فوجی دستوں کی بحفاظت واپسی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور پاکستانی فورسز بھارتی گوریلوں کو گرفتار کرکے دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہیں، عالمی سطح پر پاکستان اس صورتحال کا بڑا فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورت میں بھارت کو ’’مسلم ابھار‘‘ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو کشمیر سے لیکر عرب ممالک تک وسیع ہوگا۔ بھارت میں آزادی کی 200 سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں اگر ’’مسلم جوش‘‘ کے نتیجے میں کشمیر سے ہاتھ دھوئے تو بھارت ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا اور آزادی کی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گی۔ بھارت نے بالآخر ’’را‘‘ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے کہا گیا کہ وہ پاکستان کے اندر ’’خفیہ آپریشن‘‘ کرے اور اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرے ’’را‘‘ کو یہ ٹاسک بھی دیا گیا کہ جہادی رہنماؤں حافظ محمد سعید‘ مسعود اظہر اور داؤد ابراہیم کو نشانہ بنایا جائے لیکن سندھ بلوچستان نہ گجرات ہیں اور نہ ہی بنگلہ دیش‘ چنانچہ ’’را‘‘ سمیت بھارتی فوج‘ آئی بی اور دیگر ادارے اپنے وزیراعظم نریندر مودی اور حکومت کی حماقتوں کا ماتم کررہے ہیں۔ کبھی سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور کبھی سرحدی دیہاتوں سے نقل مکانی کرائی جارہی ہے۔

تاریخ سے نابلد اور شعور سے عاری بھارتی قیادت سندھ اور بلوچستان میں 1971 کی تاریخ کو دہرانے کا خواب لیے ہذیان بک رہی ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور مشرقی پاکستان میں 99 فیصد بنگالی قوم آباد تھی۔ پاکستان میں آباد کاری کی صورتحال اس سے قطعی مختلف ہے۔ یہاں چاروں صوبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان صوبوں میں مختلف قومیتیں آباد ہیں سندھ میں دو مختلف قومیتوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔

1947 میں قیام پاکستان سے قبل سندھی مسلمان ہندوؤں کے تسلط سے بری طرح بیزار تھے۔ ان کی 87 فیصد زرعی زمین ہندو ساہو کاروں اور زمینداروں کے پاس رہن تھی، انہیں رات کے وقت ہندوؤں کے محلے میں جانے کی اجازت نہیں تھی ،اگر کوئی سندھی مسلمان غلطی سے رات کے وقت ہندو محلے میں جاگزرتا تھا تو اسے مارپیٹ کر تھانہ میں بند کرادیا جاتا تھا اور دوسرے دن اس کے لواحقین آکر اس کی ضمانت کراتے تھے۔ 1946 میں حیدر آباد کے قاضی محمد اکبر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر دادو سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے ،لیکن ان کو بھی حیدر آباد کے دولت مند ہندوؤں کی بستی ہیرآباد میں رہائش کی اجازت نہیں ملی تھی۔ گلی‘ محلوں کے نام بھی ہندوؤں کے ناموں پر رکھے گئے تھے۔ اس جبر نے سندھی مسلمانوں کو اس قدر مایوس اور مشتعل کر رکھا تھا کہ 1943 میں پاکستان کیلئے سب سے پہلی قرار داد منظور کرنے والا صوبہ سندھ تھا۔ اس سے قبل سندھ کی ممبئی سے علیحدگی کی تحریک بھی چلائی گئی تھی۔ سندھ کے مسلمانوں نے اس مقصد کیلئے 1933ء میں ’’سندھ پیپلز پارٹی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی تھی جس کے سربراہ سرشاہنواز بھٹو تھے۔ ان کے صاحبزادے ذوالفقار بھٹو نے بعدازاں 1969ء میں پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی جدوجہد سے 1935ء میں آل انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد اپریل 1936ء میں سندھ ممبئی کے تسلط سے آزاد ہوگیا اور اس کی صوبائی حیثیت بحال ہوگئی تھی۔ اگلے صوبائی انتخابات تک سر شاہنواز بھٹو کو سندھ کے انگریز گورنر سر لانسلاٹ کا مشیر مقرر کیا گیا۔ سندھ کی ممبئی سے علیحدگی روکنے کیلئے کئی بااثر ہندو سیٹھوں نے رکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ آج صوبے کی 90 فیصد سے زائد آبادی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے جو 1947ء میں ہجرت کے زخم لیکر اور آگ وخون کے سمندر پار کرکے سندھ میں آباد ہوئے۔ دوسری طرف مقامی سندھی آبادی نے تقسیم برصغیر سے قبل ہندوؤں کے تسلط کے خلاف طویل سیاسی اور معاشی جنگ لڑی ہے۔ صوبے کی تقریباً 100 فیصد آبادی محض بھارتی وزیراعظم مودی کے کہنے پر کس طرح پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

بلوچستان میں بھی ماضی کے مقابلے میں بڑی حد تک پرامن فضا نظر آرہی ہے۔ بلوچستان نے خان آف قلات کی قیادت اور بلوچ سرداروں کی مرضی سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جلسوں سے خطاب میں کتنا ہی سندھ اور بلوچستان کی عوام کو اکسانے کی کوشش کریں۔ پاکستان کے دونوں صوبوں کو کشمیر بنانے کے دعوے کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کا ماضی ذہنوں پر نقش ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو کسی تحریر کی محتاج نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’گجرات کا قصائی‘‘ اپنی کھال میں رہنے کی کوشش کرے۔ بھارتی فوجیوں اور عوام کو مروانے سے گریز کرے۔ مودی نے ابھی تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے راہ فرار اختیار کی ہے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارتی عوام کے غیض وغضب کے باعث بھارت سے فرار ہونا پڑے۔ دھوکے‘ سازشوں اور طویل جغرافیائی فاصلے کے ذریعے ’’بنگلہ دیش‘‘ بنوانے والے تینوں بڑے کردار اور ان کے خاندان افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے لیکن سندھ اور بلوچستان نوعیت کے اعتبار سے مختلف خطے ہیں۔ ان دونوں صوبوں کا کوئی بھی مسلمان باشندہ اب دوبارہ ہندوؤں کی غلامی میں جانا پسند نہیں کرے گا۔ پاکستان کے عظیم سپہ سالار جنرل راحیل شریف‘ مسلح افواج اور پاکستانی قوم نے اپنی دھرتی کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔