تاجکستان، 13 ہزار افراد کی داڑھیاں مونڈھ دی گئیں، 1700 خواتین بے حجاب

tajik-muslims

مغرب میں لادینیت (سیکولر ازم) کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ملک کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور عوام کے اپنے مذہبی عقائد پر عملدرآمد کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ لیکن جیسے ہی مسلمان ممالک میں سیکولر ازم آتا ہے، اس کی تعریف بالکل بدل جاتی ہے۔ یہ سیدھا اسلام پر حملہ کرتا ہے اور داڑھی، حجاب اور لباس جیسی معمولی چیزوں پر سب سے پہلا حملہ آور ہوتا ہے یعنی کہ اسے داڑھی کے بال اور سر پر کپڑے کے ایک ٹکڑے کے برابر کا اسلام بھی برداشت نہیں ہے۔ اس کی مثالیں بہت طویل ہیں، مصطفیٰ کمال پاشا کے دور کا ترکی، رضا شاہ پہلوی کے عہد کا ایران اور اب سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستیں جن میں نیا نام ہے تاجکستان کا کہ جہاں ایک سال کے عرصے میں لگ بھگ 13 ہزار افراد کی داڑھیاں مونڈھ دی گئی ہیں، 1700 خواتین اور لڑکیوں کو بے حجاب کیا گیا ہے جبکہ 160 ایسی دکانیں بند کی گئی ہیں، جہاں مسلمانوں کے روایتی ملبوسات فروخت ہوتے تھے اور یہ سب حرکتیں یہ کہہ کر کی گئی ہیں کہ تاجکستان کو “بدیسی” اور “اجنبی” ثقافت کے اثر و رسوخ سے آزاد کیا جا رہا ہے۔

“الجزیرہ” کے مطابق جنوب مغربی صوبے ختلان کے سربراہ بہرام شریف زادہ نے بتایا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 1700 سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو قائل کیا کہ وہ حجاب اوڑھنا چھوڑ دیں۔ یہ “فخریہ” بات انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتائی اور کہا کہ ان اقدامات کا مقصد ملک کو “انتہا پسندی” سے پاک کرنا ہے۔

افغانستان کے پڑوس میں واقع تاجکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، اور دہائیوں تک یہ سوویت یونین کے قبضے میں رہا، جب عوام کے مذہب و عقائد پر سختی سے پابندی لگائی گئی لیکن “اب اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے” والا معاملہ لگتا ہے۔ ریاست تاجکستان کی لادین قیادت پڑوسی افغانستان کی “ناپسندیدہ روایات” سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صدر امام علی رحمان جلد ہی ایک قانون کی منظوری دیں گے جس کے مطابق ملک میں لادینیت کے فروغ اور عوام کے ان عقائد، رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی کی جائے گی جو “غیر ملکی” ہیں اور تاجکستان کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

ابھی گزشتہ ستمبر میں تاجکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کی واحد رجسٹرڈ اسلام پسند جماعت “اسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی تاجکستان” پر پابندی عائد کی تھی اور اس کے بعد یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کس طرف جا رہاہے۔ خود صدر امام علی رحمان 1994ء سے تاجکستان پر حاکم بنے ہوئے ہیں اور ان کی موجودہ صدارتی مدت بھی 2020ء میں ختم ہوگی۔ گزشتہ ماہ پارلیمنٹ نے صدر اور ان کے اہل خانہ کو تاحیات استثنا دیا ہے، یعنی اگر ان کے لیے حالات ناسازگار بھی ہوگئے تو کوئی ان کو بدترین کرپشن پر عدالت میں نہیں گھسیٹ سکے گا۔ اس کے علاوہ “رہنمائے قوم” کا باضابطہ خطاب اور “تاجکستان میں امن و یکجہتی کا بانی” بھی قرار دیا گیا۔ بس انہیں دیوتا بنانا باقی رہ گیا ہے اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکا مارنے کے بعد اب یہ بھی جلد ہی بنا دیا جائے گا۔

71 لاکھ آبادی کا حامل تاجکستان سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی وسط ایشیائی ریاستوں میں سب سے زیادہ غربت اور عدم استحکام سے دوچار ہے۔ دو دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تاجکستان آج بھی روس پر انحصار کرتا ہے اور حکومت کے اقدامات سے یہی لگتا ہے کہ سوویت یونین تو مذہب پر قدغن لگانے والی حکومت سے آزاد ہوگیا لیکن تاجکستان آج بھی غلامی کی انہی زنجیروں میں ہے۔