بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت

pakistan-rivers

بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا اور ا ب حالات معمول پر آجانے چاہییں۔ لیکن ابھی بھارتی فوج کے سربراہ کے اس بیان کی گونج بھی کم نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی فوج نے چھمب سیکٹر میں ایک اور کارروائی کی اور صبح 4 بجے یہ سوچ کر کہ پاک فوج کے جوان آرام کررہے ہوں گے یا تہجد کی نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوں گے، پاکستانی علاقے میں بھاری توپوں سے گولا باری اور فائرنگ شروع کردی لیکن مورچوں میں چوکس اور دشمن کی لمحہ لمحہ کی نقل وحرکت کی نگرانی کرنے والے ہمارے جوانوں نے بھارتی فوج کو ان ہی کی زبان میں اس سے زیادہ سختی کے ساتھ جواب دیا جس پر بھارتی فوجی اپنے جانی نقصان کے خوف سے گولا باری اور فائرنگ کاسلسلہ بند کرکے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کا یہ سلسلہ کم وبیش4گھنٹے جاری رہا لیکن پاک فوج کے جوانوں کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے پاک فوج کا کوئی جانی نقصاننہیں ہوا۔

بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر بار بار اشتعال انگیزی کے یہ واقعات اور ان کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی کوششوں سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بڑی جنگ کی پیش بندی کررہاہے اور جنگ شروع کرنے سے قبل اس کی تمام تر ذمے داری پاکستان پر ڈالنے اور عالمی رائے عامہ کے سامنے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے اوران کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلیے اس طرح کی اوچھی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ بھارتی جارحیت کایہ طریقہ نیا نہیں ہے، 1971 میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر حملہ کرنے سے قبل بھی بھارت نے اسی طرح کی سرحدی چھیڑ چھاڑ کاسلسلہ شروع کیاتھا اور پھر اس کو بہانہ بنا کر بھرپور جنگ کا آغاز کردیاتھا، بھارت کی اس حکمت عملی اور بہترین سفارتی حربوں کے سبب اقوام عالم کی اکثریت اس وقت بھی بھارت کی جارحیت کو اس کے دفاع کی کوششیں تسلیم کرنے پر تیار ہوگئی تھیں اور اس طرح بہترین سفارتی حکمت عملی کے ذریعے بھارت اقوام عالم میں پاکستان کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوگیاتھا، اور اس وقت بھی چند ملکوں کے سوا کوئی بھی پاکستان کے درست موقف کو درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عالمی برادری خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی اور یہ ملک دولخت ہوگیا۔

ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب ایک دفعہ پھر بھارت اپنی اسی پرانی حکمت عملی پر کارفرما ہے اور اس طرح سرحدی چھیڑ چھاڑ کے واقعات کی ذمے داری پاکستان پر تھوپ کر خود کو عالمی برادری کے سامنے مظلوم ثابت کرنے اور اپنی دفاع کیلیے جنگ میں حق بجانب ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

جہاں تک پاک فوج کاتعلق ہے تو پاک فوج کے ارباب اختیار بھارت کے ان جھوٹے دعووں اور الزامات کاپول کھولنے کیلیے ہرممکن ذرائع استعمال کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے گزشتہ روز عالمی میڈیا کے نمائندوں کو کنٹرول لائن کادورہ کرانے کے بعد بھمبر کے علاقے باغ سر میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں پاک فوج کی موجودگی میں بھارت کے دعوے کے مطابق کوئی 5کلومیٹر اندر گھس کر تو دکھائے، ایسی کوشش کرنے والے کووہ کرارا جواب ملے گا کہ جو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ جنرل عاصم باجوہ نے غیر ملکی صحافیوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جگہ جگہ فوجی دستوں اورریپڑی سسٹم کی موجودگی میں نہ تو کوئی کنٹرول لائن پار کرسکتاہے اور نہ ہی یہاں کوئی ہیلی کاپٹر اترسکتاہے۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے صحافیوں کوبتایا کہ جہاں تک پیراٹروپر یعنی چھاتا بردار فوجیوں کاسوال ہے تو اگر بھارت یہ دعویٰ کرتاہے تو یہ بتائے کہ اس کے فوجیوں کی لاشیں کہاں گئیں؟اور بھارت یہ بھی بتائے کہ چھاتا بردار فوجی نیچے آنے کے بعد واپس کیسے گئے؟جنرل عاصم سلیم باجوہ نے غیرملکی صحافیوں پر واضح کیا کہ جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے لیکن بھارتی رہنما جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں، پاکستان ایک پرامن ملک ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کاایسا جواب دیں گے کہ دشمن آئندہ کبھی ہماری طرف آنکھ اٹھا کردیکھنے کی بھی جرات نہیں کرے گا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بلاشبہ پاکستان کے موقف کی بھرپور انداز میں نہ صرف ترجمانی کی بلکہ غیر ملکی صحافیوں کو حقائق سے آگاہ کرکے اور انھیں خود اپنی آنکھوں سے صورتحال کا مشاہدہ کرنے کاموقع فراہم کرکے بہترین سفارت کاری کابھی ثبوت دیاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ بھارت کی اس جنگی حکمت عملیوں اور جنگ شروع کرنے کیلیے چھیڑ چھاڑ کے اس سلسلے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری کو اصل صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے کیاسفارتی حکمت عملی اختیار کی؟

میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ پاکستانی رہنماماہر سفارتکاروں کے ساتھ بیٹھ کر یہ سوچیں کہ بھارت کی جانب سے جارحیت کے باوجود دنیا کے سامنے مظلوم بننے اور پاکستان کو جارح قرار دینے کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلیے کیاکرنا چاہیے اور ماہر سفارتکاروں کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے قابل عمل حکمت عملی طے کرکے فوری طورپر اس پر عملدرآمد شروع کرے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کی جانب سے سرحدی دراندازی اور اس کو سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی کوششوں کے فوری بعد وزارت خارجہ کی جانب سے کم از کم پاکستان میں موجود تما م سفارتکاروں کو مدعو کرکے ان کو تمام صورت حال سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیاجاتا اورجس طرح عاصم سلیم باجوہ نے غیر ملکی صحافیوں کو کنٹرول لائن کادورہ کرایا ہے اسی طرح تمام سفارتکاروں کو بھی کنٹرول لائن کادورہ کراکے انھیں صورتحال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کاموقع دیاجاتا، تاکہ وہ اپنے اپنے ملکوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرسکتے۔ اس کے ساتھ ہی دفتر خارجہ کو فوری طورپر ماہر سفارتکاروں پر مشتمل سفارتی وفد کو مختلف ممالک خاص طورپر بھارت کے زیادہ ہمنوا تصور کیے جانے والے ممالک کے دورے پر بھیج کر ان ملکوں کے رہنماؤں کوبھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تاکہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کی سازش ناکام بنائی جاسکتی۔ لیکن حکومت اور وزارت خارجہ کی جانب سے ابھی تک نہ تو کوئی ایسا قدم اٹھایا گیاہے اور نہ ہی اس کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے اس پراسرار لاتعلقی کا رویہ معنی خیز معلوم ہوتاہے۔

اس نازک صورتحال کاتقاضا ہے کہ پاکستان جارحانہ سفارتی حکمت عملی اختیار کرے اور پوری دنیا کے طوفانی دورے کرکے ہمارے سفارتکار عالمی برادری کوبھارت کی جارحانہ روش کی وجہ سے پیدا ہونے والی دھماکا خیز صورت حال سے آگاہ کرنے کے ساتھ انھیں بھارتی رہنماؤں کوہوش کے ناخن لینے پر مجبور کرنے کیلیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ تاہم اس کیلیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کسی قابل اور عالمی امور پر نظر رکھنے والے سیاستدان کو وزیر خارجہ بنایاجائے تاکہ وہ تمام تر اختیارات بروئے کار لاکر پاکستان کوسفارتی سطح پر تنہائی سے بچانے کیلیے پاکستان کوتنہا کرنے کیلیے بھارتی حکمرانوں کی جانب سے کی جانے والی کوشش کا بھرپور توڑ کرسکے۔ یہ صحیح ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان نے سفارتی سطح پر کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں جس کااندازہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں سے لگایاجاسکتاہے، لیکن بھارت کی جارحانہ کارروائی کے بعد روس کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کوحوصلہ افزا قرار نہیں دیاجاسکتا۔ یہ خیال اپنی جگہ درست ہے کہ عوامی جمہوریہ چین، ترکی، ایران اور سعودی عرب جیسے دوستوں کی موجودگی میں پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کا بھارتی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا لیکن بھارت کے مقابلے میں سفارتی سطح پر کمزوری بھی ہمارے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، جہاں تک بھارت کاتعلق ہے تو اس نے بنگلا دیش، بھوٹان اورافغانستان پر دباؤ ڈال کر سارک کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اعلان اور ان کی عدم شرکت کی وجہ سے سارک کانفرنس منسوخ کراکے سفارتی محاذ پر اپنی بالادستی ثابت کردی ہے۔ بھارت کی اس سفارتی بالادستی کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کو اس صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے سفارتی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی اور کل وقتی وزیر خارجہ کے تقرر کے بغیر ایسا کرنا ناممکن نظر آتاہے۔