نواز-مودی خفیہ ملاقات کا انکشاف، معروف شخصیت دونوں کے درمیان رابطہ کار

nawaz-sharif-narendra-modi

ایک سال قبل نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ہم نے پاکستان کے وزیر اعظم اور بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان ایک مصافحہ دیکھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سارک اجلاس سے ہٹ کر دونوں کی گھنٹے بھر کی خفیہ ملاقات ہوئی تھیں۔ گلے ہوئے، شکوے کیے گئے، اپنی مجبوریوں کا رونا بھی رویا گیا اور اتفاق کیا گیا کہ عوامی وعدوں کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے انہیں زیادہ وقت اور کشادگی کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات کا اہتمام بھارت میں فولاد کی صنعت سے وابستہ اہم شخص سجن جندل نے کیا تھا، جو سابق کانگریس رکن پارلیمان نوین جندل کے بھائی ہیں۔

یہ انکشاف معروف بھارتی صحافی برکھا دت نے اپنی پہلی کتاب “This Unquiet Land – Stories from India’s Fault Lines” میں کیا ہے۔ الف بکس کمپنی کی جانب سے جاری ہونے والی یہ کتاب بدھ سے فروخت کے لیے دستیاب ہوگی۔ جس کے مطابق ذرائع ابلاغ اور عوام کی نظروں سے اوجھل رہنے والی اس ملاقات میں نواز شریف اور نریندر مودی نے ایک ایسی شخصیت کو پایا جو “مشکل حالات میں بھی انہیں باہم منسلک رکھے۔” انہوں نے جندل ایک غیر رسمی پیغام رساں کے طور پر بیان کیا ہے جو دونوں رہنماؤں کے درمیان “خفیہ پل” کا کام انجام دے رہے ہیں۔ فی الحال اس امر کی تصدیق جندل کر رہے ہیں اور نہ ہی بھارت کی وزارت امور خارجہ۔

نواز شریف اور نریندر مودی کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی، جب بھارتی وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف دہلی تشریف لے گئے تھے۔ دونوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ باہمی تعلقات کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھیں گے۔ برکھا کہتی ہیں کہ ” دونوں نے اتفاق کیا کہ باہمی واقف کار کے ذریعے غیر رسمی طور پر بات کرنا کارآمد ہوگا، دونوں اس فیصلے پر مطمئن بھی دکھائی دیے۔” اور یہ باہمی واقف کار تھے سجن جندل۔ انہوں نے دہلی ملاقات کے بعد نواز شریف کے لیے چائے کی دعوت بھی کی اور جب برکھا دت دہلی کے تاج مان سنگھ ہوٹل میں نواز شریف سے ملنے گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ سجن جندل نواز شریف کے صاحبزادے کو دوپہر کے کھانے پر لے جا رہے تھے۔

برکھا دت لکھتی ہیں کہ “یہ کوئی راز نہیں تھا کہ بھارت میں فولاد کے شعبے سے وابستہ سرکاری و نجی شخصیات پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی خواہاں ہیں؛ انہیں اس کی ضرورت ہے تاکہ وہ افغانستان سے خام لوہا بذریعہ پاکستان درآمد کر سکیں۔” لیکن ساتھ ہی کہتی ہیں کہ نواز شریف اور سجن جندل کی دوستی ایک کاروباری شخصیت اور کسی سربراہ مملکت کے باہمی تعلقات سے آگے دکھائی دیتی ہے، اور دونوں “ہم راز” بن چکے ہیں۔ یہی قربت گزشتہ سال 26 و 27 نومبر کو سارک اجلاس میں کام آئی۔

مودی نے سجن جندل کو جلد از جلد نیپال طلب کیا بلکہ کہا گیا کہ پہلی پرواز پکڑ کر کٹھمنڈو پہنچے اور “اپنے سرحد پار کے ‘دوست’ تک رسائی حاصل کریں۔” دونوں رہنماؤں نے “ہوٹل میں موجود جندل کے کمرے میں” خاموشی سے ملاقات کی، جہاں انہوں نے ایک گھنٹہ ساتھ گزارا۔ جس میں مودی نے کہا کہ ان کی خواہش کے باوجود “حالات” انہیں باضابطہ راہ و رسم بڑھانے کی اجازت نہیں دیتے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے “دباؤ” کے بارے میں بتایا اور کہا کہ کس طرح “اختیارات کے معاملے پر فوج کے ساتھ مذاکرات مرحلہ وار خاتمے کو پہنچے۔” برکھا لکھتی ہیں کہ “اسی خفیہ ملاقات میں مودی کے لیے راہ ہموار کی کہ دو ماہ بعد ایک فون کال کے ذریعے نواز شریف سے کھلا رابطہ کریں، جسے ورلڈ کپ کے لیے معصوم سا خیر سگالی پیغام سمجھا گیا۔”

برکھا دت کا دعویٰ ایک مشہور حقیقت کو استحکام بخشتا ہے کہ زیادہ تر پاک-بھارت نازک باہمی تعلقات کا فیصلہ مقامی سیاست کرتی ہے۔ دت کے اپنے بیان کے مطابق جندل کا کردار صرف “سیاست کے فریبی معاملات” پر مذاکرات نہیں۔ “وہ ایک خفیہ پل کی طرح ہے جو دونوں کو منسلک کرتا ہے کہ جب بھی کوئی بغیر کسی پروٹوکول یا تشہیر کے سرحد پار رابطہ کرنا چاہے تو کرلے۔” اور کیونکہ جندل کا یہ کردار ریکارڈ پر موجود نہیں اس لیے ظاہراً اس سے انکار بھی کیا جا سکتا ہے۔

برکھا دت کی یہ کتاب ان کا ذاتی موقف ہے جس کو انہوں نے اپنے صحافی تجربے سے وسیع کینوس پر ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب بھارت میں عورت کے مقام، جنگ کارگل، ممبئی حملے، کشمیر، قومی سیاست اور اس کے اہم کھلاڑیوں، سب کا احاطہ کرتی ہے۔