اصلاحات کی ضرورت

ملک کے تمام شعبوںمیں خرابیاں ہیں جن سے ہر زی شعور آگاہ ہے اسی لیے جھٹلانا ممکن نہیں اگرخرابیوں کوجھٹلاناممکن نہیں تو پھر اصلاحات کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ملک میں وسائل کی کمی نہیں مگراستعمال اور تقسیم کے مربوط طریقہ کار کی کمی ضرورہے اسی بنا پر وسائل نچلے طبقات تک نہیں پہنچتے اوروہ محرمیوں کا شکارہیں یہ محرومیاں اور مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں جس سے ریاست پر عام آدمی کے اعتماد میںکمی آئی ہے اگر سیاسی قیادت درست طریقے سے فرائض سرانجام دیتی ، وقت کے ساتھ اصلاحات پر کام ہوتا اور خرابیوں پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی تو افراتفری کی بجائے ملک میں امن وسکون ہوتا بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ سیاسی قیادت نے مسائل میں کمی لانے کی بجائے ذاتی مفادات پرہی توجہ مرکوز رکھی ہے جس سے پر چھوٹے چھوٹے مسائل بھی گھمبیر شکل اختیار کرنے سے نچلے اور کمزور طبقات مسائل کے بھنورمیں پھنستے گئے اور اُن کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا گیا جس سے عام آدمی کے نظامِ مملکت پر اعتمادمیں کمی آئی اور ہونے والے فیصلوں پر شک کی فضا بنتی گئی حالانکہ دنیا بھر کی ریاستیں بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات لا رہی ہیں مگر ہمارے ہاں اب بھی اِس حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا نہ ہی اِداروں نے ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دی ہے سیاسی قیادت نے بھی فرائض کی بجاآوری کی بجائے ایک دوسرے کو رگیدنے میں توانائیاں صرف کیں جس سے غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کے مواقع ملے۔
نظام ِانصاف پر عام آدمی کا اعتماد متزلل ہو تو سیاسی استحکام کا خواب بھی ٹوٹ جاتاہے لیکن آج تک اِس حوالے سے باعتماد طریقہ کار بنانے پر اتفاق نہیں ہو سکا امیر ، غریب اور طاقتور ،کمزور میں سخت تفریق ہوتی ہے کچھ عرصہ سے عدلیہ نے بالاتر اورطاقتور ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن یہ کہنا کہ سب اچھا ہوگیاہے درست نہیں جبکہ تک بلاتفریق انصاف نہیں ہو گا لوگوں کے شکو ک شبہات ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ آئین اور قانون سازی کا فورم پالیمان ہے اِس لیے خرابیوں کو برقراررکھنے میں بڑا حصہ سیاسی قیادت کوقرار دے سکتے ہیں جس نے محدود مفادات کے لیے کبھی اصلاحالات لانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اِس حوالے سے کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہے اپوزیشن پر عرصہ حیات تنگ ہونے سے عدالتی فیصلے بھی شکوک و شبہات کی نظر ہوئے ہیں اوراب اگر کسی سیاسی شخصیت کو سزا ہوتی ہے تو لوگ منصفانہ نہیں سمجھتے بلکہ کہیں نہ کہیں سے ہونے والی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں یہ شک کی فضا اکثریتی ازہان میںراسخ ہوچکی ہے عالمی اِدارے ہمارے عدالتی نظام کی درجہ پندی کرتے ہوئے نظامِ انصاف کو کم تر حثیت پر رکھتے ہیں مداخلت اگر نہیں بھی ہو تی پھر بھی ایک ہی قسم کے کیس پر مختلف عدالتوں سے الگ الگ ہونے والے فیصلوں نے نظامِ عدل کو سوالیہ نشان ضرور بنایاہے۔
اختیاراورغروروتکبر میں ٹریفک سارجنٹ کو کچل دیا جاتا ہے جس کی میڈیا کے ذریعے ویڈیو پورا ملک دیکھتا ہے پھر بھی ملزم باعزت بری ہوجاتا ہے اِ س طرح کے فیصلے قدرو منزلت میں اضافہ نہیں کرتے ۔ انڈرٹرائل امیر آدمی کوحوالات یا جیل میں رکھنے کی بجائے پرائیویٹ ہسپتال بنواکر رکھنے کی بھی گنجائش نکال لی جاتی ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ پولیس سمیت سیاسی اشرافیہ بارسوخ آدمی کی سہولت کار بننے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح کوئی صاحبِ اقتدار قتل کر دے تو پولیس ہاتھ ڈالنے کی بجائے پردہ پوشی کی کوشش کرتی ہے ایسے اطوار ساکھ بناتے نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے پھربھی جنھوںنے اصلاحات لاکر خرابیوںپر قابوپانا ہوتا ہے وہ سیاسی قیادت مسلسل غفلت کی مرتکب ہورہی ہے نیک نامی کمانے سے غفلت کا مظاہرہ کیا جائے گاتو پھر اقتدارسے محرومی پرلوگ سڑکوں پر نکلنے اور لاٹھیاں کھانے سے گریز ہی کرتے ہیں چاہے کسی کو غیر آئینی طریقے سے ہی کیوں نہ اقتدار سے بے دخل کیا جائے خرابیوں پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کرنے سے عام آدمی کو فائدہ ملے گا اور سیاسی قیادت کو بھی ثمرات مل سکتے ہیں کیونکہ اگر خرابیاں نہیں ہوں گی تواقتدار سے کسی کو غیر آئینی طریقے سے بے دخلی کے راستے بھی بند ہوجائیں گے۔
انصاف میں تاخیر انصاف نہیں بے انصافی ہوتی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی آزادانہ نقل و حمل کے متعلق ایک درخواست 2019 میں دائر کی گئی گزشتہ سماعت پرمنصفوں کی طرف سے اٹارنی جنرل کو وکلا سے ملاقات کرانے کی ہدایت کی گئی دس اکتوبر2021 کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحلت فرما گئے لیکن 2019 کو دائر ہونے والی درخواست کی سماعت رواں ماہ چوبیس فروری سے دوبارہ شروع ہورہی ہے جس کے لیے چیف جسٹس جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہوں میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے ظاہر ہے اب اگر بینچ آزادنہ نقل و حمل کی اجازت کا فیصلہ دے بھی دیتا ہے تو اپیل کنندہ کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا کیونکہ ڈاکٹر قدیر سماعت سے چار ماہ قبل ہی منوں مٹی تلے سو چکے ہیں اِس لیے حق یا خلاف ہونے والا کوئی فیصلہ اُنھیں متاثر نہیں کر سکتا بلکہ اللہ کے حضور سزاوجزاکے لیے پیش ہو چکے ہیں اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیاوی زندگی اجیرن بنانے والوں کاکبھی تعین ہو سکے گا ؟
کسی عدالتی فیصلے کے متعلق ہونے والی تاخیر پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ توہینِ عدالت لگ سکتی ہے مگر سیاسی قیادت سے تو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ وہ عوامی نمائندے ہیں اورانتخابات میں اُنھیں عوامی عدالت میں بھی پیش ہونا ہوتا ہے اقتدار کے دوران عوامی مسائل کے حل میں تاخیر کا باعث بننے والے نظام میں اصلاحات لانے میں کون سا امر مانع رہا عوام دریافت کر سکتی ہے اگرخرابیوں اور مسائل کا تعین کرتے ہوئے ضروری اصلاحات پر توجہ دیں تو اِس طرح نہ صرف اُن کی اپنی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ تیز رفتار انصاف کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے جب عالمی اِدارے ہمارے نظامِ انصاف کو ہدفِ تنقید بناتے اور رینکنگ میں سب سے نچلے درجے پر رکھتے ہیں تو اِس سے صرف نظامِ انصاف پر ہی سوالیہ نشان نہیں پیدانہیں ہوتے بلکہ ملک کی بدنامی کے ساتھ صاحبانِ اقتدار کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے جتنے بھی مہذب اور ترقیافتہ معاشرے ہیں وہاں نہ صرف انصاف جلد ہوتا ہے بلکہ امیر ،غریب اورکمزور و،طاقتور میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی بلکہ غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کی صورت میںبرسرِ اقتدار لوگوں کو بھی نہ صرف کٹہرے میں لایا جاتا ہے بلکہ جرم ثابت ہونے پر سزا بھی دی جاتی ہے لیکن کوئی بے گنا ہ چاہے کتنا ہی کمزور یا غریب کیوں نہ ہو کوئی طاقتور تختہ مشق نہیں بنا سکتا نہ ہی حکومتوں کی ایماپر فیصلے کرنے میں نظامِ انصاف تاخیر کرتا ہے انھی وجوہات کی بنا پرجمہوریت مستحکم اور سیاسی استحکام ہے اب ہماری سیاسی اشرفیہ کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وہ اصلاحات لاکر خرابیاں دور اور مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں یا اِداروں پر دبائو ڈال کر ملک میں سیاسی عدم ِ استحکام برقرار رکھنے اور غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کے لیے راستے کُھلے رکھنے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔