کشمیر۔۔۔۔کیا مسلح جہاد کے سوا کوئی اور راستہ بچا ہے

1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام اور ریاستی اسمبلی میں اس کی شرکت کا واحد مقصد یہ تھا کہ آئینی اور پرامن ذرائع استعمال کرکے بھارت کو با عزت طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف راغب کیا جاسکے ۔اس اتحاد میں ریاست کی تمام آزادی پسند تنظیمیں یا ان سے وابستہ افراد شا مل تھے ۔تاریخ ساز دھاندلی کے نتیجے میں اس پر امن عمل کو سبو تاژ کیا گیا اور نتیجہ ریاست گیر عسکری جدوجہد کی شکل میں نکلا۔اگر ایک طرف ایک لاکھ کشمیری شہید ہوئے تو دوسری طرف کئی اعلیٰ بھارتی فوجی افسروں سمیت ہزاروں بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے ۔نہ صرف بھارتی سیاسی قیادت بلکہ فوجی قیادت بھی چیخ اٹھی کہ مسئلہ کشمیر کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے ۔مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکلنا چا ہیے ۔9/11نے یہ موقع فراہم کیا۔لیکن بھارت نے پرویز مشرف کے کمزور اعصاب پر اثر انداز ہوکر اس موقعے کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور امن امن اور مذاکرات کی رٹ لگاکر،جموں و کشمیر میں اپنے قبضے کو مزید دوام بخشنے کی کو شش کی ۔عسکری جدوجہد دھیمی پڑ گئی ۔مذاکرات کے نام کا خوب استعمال ہوا لیکن ہر بار مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر دیگر غیر اہم ایشوز پر بات چیت کے ڈرامے دکھائے جانے لگے ۔تاثر یہ قائم کیا گیا کہ کشمیری یہ جنگ ہار گئے ۔اور اب دور دور تک آزادی یا حق خود اردیت کے حوالے سے کوئی تحریک جنم نہیں لے سکتی۔
جب کشمیری عوام کو اندازہ ہوا کہ بے مقصد مذاکرات کی آڑ میں کشمیریوں کو بہلایا جارہا ہے تو 2008سے انتفاضہ کی تحریک شروع ہوئی،2010ء میں یہ تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ غیر جانبدار اور آزاد ذرائع کے مطابق صرف 11جون2010سے 30ستمبر2010تک 115بچے شہید ہوئے،3000مظاہرین زخمی ہوئے۔جن میں کئی عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔52طلباء اور 35سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ۔ پوری دنیا کو اس انتفاضہ سے کشمیری عوام نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ جب تک مسئلہ کشمیر ان کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوگا،وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔2008 ،2009اور 2010کی یہ تحریک بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک پر امن تحریک تھی جو استبداد اور جارحیت کے خلاف ایک مضبوط ترین عوامی رد عمل تھا۔2011ء میں کشمیر کے منظر نامے پر قدرے خاموشی نظر آئی۔بھارتی سرکار اور اس کے حاشیہ برداروں نے اس خموشی کو ریاست میں امن اور بھارت کے حوالے سے کشمیریوں کی سوچ میں تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دینے کی کوشش کی تاہم تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد پر گہری نظر رکھنے والوں نے اس خموشی کو قبرستان کی خموشی کے مترادف قرار د یا ۔ریاستی اسمبلی کے رکن انجینئر عبدالرشید نے 8مارچ2012 کو اسمبلی کے فلور پر بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھاکہ کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ 2010ء میں انتفاضہ کی تحریک اور2011 ء میں قدرے خاموشی کے بارے میں انہوں نے واضح کیا تھاکہ “کشمیر میں امن نہیں بلکہ پولیس کی لاٹھیوں ،ظلم وزیادتی اور ہزاروں نوجوانوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کرکے جبری خاموشی قائم کی گئی ہے۔ایک دفعہ یہ جبری اقدامات ختم کیے گئے تو پھر حکمرانوں کا چھٹی کا دودھ یاد آئیگا‘ ۔وادی سے شائع ہونے والے معروف اردو اخبار کشمیر عظمیٰ نے 2012ء کا کشمیر کے عنوان سے اپنے اداریے میں واضح کیا تھاکہ کشمیر میں کبھی کبھی خاموشی اور امن کا گماں ہوتا ہے لیکن یہ خاموشی اور امن دراصل قبرستان کی خامو شی کے معنیٰ میں لیا جانا چاہیے۔”عالمی ایوارڈ یافتہ ناول Collaboratorsکے مصنف مرزا وحید نے بھارتی اور عالمی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ کشمیر میں اس وقت جو سکوت نظر آرہا ہے یہ سکوت ایک باریک چادر ہے جو اپنی تہہ میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کو دبائے ہوئے ہے۔جب تک کشمیری عوام کی تمناؤں کو تعبیر نصیب نہیں ہوگی ،یہ آتش فشاں کسی نہ کسی صورت پھٹتا ہی رہے گا۔اور اگر نوجوان نسل کی احتجاجی جدوجہد کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا تو پھر وہ بندوق کو ہی واحد آپشن کے طور پر دیکھیں گے ،وہ بندوق جو 90کی دہائی سے مختلف ہوگی،انہیں روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔”
وہی ہوا جس کا ندازہ تھا۔ بھارتی قیادت کی اس منفی سوچ نے برہان مظفر وانی کو جنم دیا ۔سینکڑوں بچوں اور جوانوں نے اس کی قیادت میں مسلح جدوجہد کا دوبارہ آغاز کیا۔برہان کشمیری قوم کی امیدوں کا مرکز بنا ۔8جولائی 2016جب اس جواں سال رہنما نے شہادت کا جام پیا تو پوری کشمیری قوم نے اسے پر نم آنکھوں سے وداع کیا ۔ایک ملین سے زیادہ لوگوں نے اس کے جنازے میں شرکت کی ۔ریاست کے چپے چپے پر اس کی غا ئبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔مقبولیت کے تمام ریکارڈ اس شا ہین بچے نے توڑ ڈالے ۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ تب سے آج کی تاریخ تک پوری قوم بھارت کے خلاف تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اپنی آزادی کے حق میں مظا ہرے کررہی ہے ۔ لیکن بھارتی قیادت اس عوامی بغا وت کو بزور طاقت کچلنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ۔انسانی حقوق کی بدترین پا مالی ہورہی ہے ۔کٹھ پتلی حکومت کی آڑ لے کر بھارتی فورسز اور پولیس صرف اور صرف بے تحاشہ طاقت کی زبان استعمال کررہی ہے ،عالمی برادری خا موش ہے ۔ کشمیری عوام کے ذہنوں میں یہ بات پھر ایک بار راسخ ہورہی ہے کہ پرامن ذرائع سے مسئلہ کشمیرکا حل مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔سینکڑوں جوان اس پیریڈ کے دوران حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں ۔فورسز اہلکاروں سے ہتھیار چھیننے کے واقعات روز مرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں ۔حزب سربراہ سید صلاح الدین جس نے کئی بار یہ واضح کیا تھا کہ اگر پر امن ذرائع سے مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو انہیں سب سے زیادہ خوشی ہوگی ۔لیکن پرامن تحریک کو پوری قوت سے دبانے کی تاریخ دہرائی گئی تو حزب سربراہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ” مذاکرات، قراردادوں اور پر امن جدوجہدکے ذریعے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا۔ مظفر آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اس موقف کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں 105دنوں سے عوامی تحریک اپنے عروج پر ہے ۔ 105ایام میں مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پر قابض بھارتی فوج نے جبر و تشدد کا ہر حربہ استعمال کیا گیا اور یہ عمل جاری ہے۔13ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہیں ۔ 12سو افراد پیلٹ گن سے شدید متاثر ہیں اور سینکڑوں بینائی سے محروم ہوچکے ہیں ۔ 8ہزار سے زائد افراد گرفتار ہیں ۔ ایک ہزار افراد پر بدنام زمانہ کالا قانون پی ایس اے لاگو کیا گیا ہے ۔ روزانہ 1ارب 40کروڑ کا معاشی و اقتصادی نقصان ہورہا ہے ۔ قتل و غارت گری کے بعد قابض بھارتی افواج نے کشمیریوں کے کھیت کھلیان اور باغ تباہ کرنا شروع کردیئے ہیں ۔ فصلوں کو آگ لگائی جارہی ہے ۔ پھلوں سے لدی گاڑیاں لوٹی جارہی ہیں ۔ 105ایام گزرنے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے ۔ اس عرصہ کے دوران اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اور بڑی طاقتوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے اور ان کا دوہرا معیار ہے ۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں پر سے کشمیریوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ جب کشمیریوں کی آواز پر عالمی سطح پر توجہ نہیں دی جارہی تو پھر کشمیریوں کے پاس بھارتی جبروتشدد اور قتل و غارت گری سے نجات کے لیے مسلح جہاد کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ۔کشمیری مجاہدین میں بھارتی فوج کو شکست سے دوچار کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ ہندوستان کا برہمن سامراج قراردادوں سے باز آنے والا نہیں اس کے لیے مسلح جدوجہد آزادی ناگزیر ہوچکی ہے۔”
پرامن ذرائع کی ناکامی اور عالمی برادری کی خموشی ،کشمیری عوام کو پھر ایک بار ایک منظم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ عسکریت کی طرف دھکیل رہی ہے ۔سب جا نتے ہیں کہ یہ عمل بہت ہی خطرناک صورتحال کو جنم دے سکتا ہے ۔ایسی خطرناک صورتحال جو شاید پھر کسی کے قابو میں نہ رہ سکے ۔اللہ رحم فرمائے