حقوق ِ ملکیت ِ دانش :مستقل قومی حکمت عملی کی ضرورت

حقوق ملکیت کا تصور تو بہت بعد میں سنا اور پڑھا ،اس سے پہلے نانی اور دادی کے ذریعے یہ کہاوت سنی کہ’’ ہاتھی پھرے گائوں گائوں ،جس کا ہاتھی اس کا نائوں (نام) ‘‘یعنی ہاتھی( برانڈ) کہیں بھی جائے گا لیکن مالک (کمپنی) کا ہی کہلائے گا۔
اب اس کہاوت کو کہیں استعمال کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ برصغیر میں حقوق ملکیت کا تصور بہت واضح تھا جو اب تک چلا آرہا ہے لیکن جب انگریز کے ذریعے برصغیر کو ترقی کا سبق سکھایاگیا ، یا یوں کہا جائے کہ یہ خطہ جدید سرمایہ داری یا کمپنی کی حکومت سے آشنا ہوا تو اس نے ترقی کے ان معیارات کو جانا جو اس وقت کا عالمی نظام طے کرچکا تھا، حقوق ملکیت میں جعلسازی کا تصور بھی تب ہی سے چلا آرہا ہے ۔اس سے ذرا آگے چلے جائیں تو اسلام نے بطور دین حقوق ملکیت ِدانش پہلے ہی دنیا پر واضح کردیے تھے ،اس کی سب سے بڑی مثال قرآن مجید ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس کے حقوقِ دانش کی ملکیت کے تحفظ کا ذمہ لیا۔ اہل زمین کے لیے اس نے اپنی کتاب قرآن کریم کے متعلق بہت یقین سے یہ فرمایا کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں بلا شبہ یہ اللہ کی اپنی تصنیف ہے۔ جب کفار نے کہا کہ یہ اللہ کاکلام نہیں تو فرمایاگیا کہ کوئی ایسی بات نہیں‘ کوئی ایسا کلام تم بھی تخلیق کرکے دکھادو‘ ایک سورۃ بنالائو۔ جب اس میں انہوں نے پس و پیش سے کام لیا تو فرمایا گیا کہ ایک آیت ہی بنا لائو ،اس میں بھی وہ ناکا م رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو ایک لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے، اس میں ایک حرف کی تبدیلی بھی کوئی نہیں کرسکتا، قیامت کے دن تک کوئی تحریف یا ترمیم نہیں ہوسکتی۔ گویا ’’کاپی رائٹ،، کے تحت اس کا چربہ تیار نہیں ہوسکتا۔ چونکہ طویل عرصہ گزرچکا ہے اس لیے اس کی نقول تو بن سکتی ہے مگر متن میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اسلام میں کاپی رائٹ کا اتنا راسخ تصور ہے کہ 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت نے کاپی رائٹ کی چوری کو ’’حرام‘‘ قرار دیا۔ فیصلے کی رو سے حقوق دانش کو ’’مال‘‘ قرار دیاگیا ہے اور کسی کا ’’مال‘‘ چوری نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ چوری حرام ہے۔
کسی حد تک یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ ’’ملکیت دانش‘‘یعنی ’’انٹیلیکچوئل پراپرٹی‘‘ کا تصور پاکستان یا اس سے پہلے برصغیر میں کیا تھا؟ اور اسلام میں اس کی کتنی اہمیت ہے؟ سوال یہ ہے کہ حقوق ِملکیت ِدانش کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس پر اگر نظر ڈالیں تو کافی ’’خلا‘‘ نظر آتا ہے، کہیں قانون موجود بھی ہے تو عمل درآمد نظر نہیں آتا۔ اس لیے عام اشیاء تو دور کی بات خاص قسم کے فن پارے بھی نقل ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر کتب کے معاملے میں یہ مرض بہت عام ہے، قیمتی ترین کتابوں کی نقل شائع کردی جاتی ہے۔
عام طور پر نصابی کتب کی پائیریسی پر اعتراض کیے جانے پر اس عمل کے دفاع میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مہنگی کتابیں علم کو طلباء کی دسترس سے دور کررہی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ سستی کتب شائع کرکے علم تک آسان رسائی ممکن بنائی جائے۔ بیرون ملک ڈالرز میں بکنے والی کتب چند روپوں میں دستیاب ہوجاتی ہیں ،ان میں تدریسی کتب خاص طور پر فوٹو کاپی بھی کرلی جاتی ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں ملے وہ اسے حاصل کرلے۔ یہاں’’ گمشدہ‘‘ کالفظ استعمال ہوا ہے۔ کھوئی ہوئی وراثت کے لیے میراث کا مطلب ہے آپ کا وہ جائز حق جو کسی رشتے کی طرف سے آپ کو ملنا ہو۔ یہ درسی کتب جو کسی نے لکھی ہوں یہ اس کا ’’مال‘‘ ہیں آپ کی میراث نہیں ۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ سب کچھ تو ہے مگر اس کا حل کیا ہے؟ ظاہر ہے قانون اور اس کی عمل داری۔
انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن پاکستان اس حوالے سے سفارشات مرتب کرتی رہی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور حسب ضرورت نئی قانون سازی کی جائے۔ ان دنوں اس سلسلے میں حقوق ملکیت دانش کا ایک نیا ڈرافٹ زیرغور ہے ،اس میں ترامیم وتجاویز آرہی ہیں ، ان پر اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت ہورہی ہے۔ اس میں ہماری تجویز یہ ہے کہ ایک مرتبہ کی قانون سازی معاملے کا حل نہیں، کیونکہ میوزک سننے کے لیے سیروں وزنی گراموفون سے پائو بھر آڈیوٹیپ اور اب ایک چھٹانک بھر یو ایس پی اور ماشہ بھر میموری کارڈ تک ‘ جس میں لاکھوں گانے محفوظ کیے جاسکتے ہیں ،اتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں کہ رائج قانون کے دائرے میں خلاف ورزی کو روکنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ اس لیے قوانین کابنیادی خاکہ بناکر ایک مستقل قومی حکمت ِعملی تشکیل دی جانی چاہئے جس کے ذریعے پاکستان میں حقوق ملکیت دانش کی ترویج وترتیب کے ساتھ تحفظ بھی ہوسکے۔
سستی درسی کتب کی پائریسی کا بھی حل نکل سکتا ہے ،اس کے لیے بھی تجویز ہے کہ قومی سطح پر درسی کتب کا بک بینک نیشنل بک فائونڈیشن کی مدد سے غیر ملکی مصنفین کی کتب کے حقوق خریدے،پھر انہیں کم قیمت پرطلباء کوفراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے کم از کم ایک علمی سرقہ کرنے والی قوم کا داغ تو اپنی پیشانی سے دھوسکیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول بھی سازگار ہوسکے گا کیونکہ علمی سر قہ سے یہ تاثر بھی گہرا ہوتا ہے کہ جب ہم علم پر خرچ نہیں کرسکتے تو کہاں خرچ کریں گے؟
پاکستان میں قانون سازی کرنے سے پہلے یہ شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں حقوق ملکیت دانش یا انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے حوالے سے کیامعیار طے کیے گئے ہیں، اس کے لیے انہی کالموں میں اس کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔