وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یوم آزادی پر اہم اعلان کا دعویٰ درست ثابت نہیں ہوسکا!

nawaz-sharif

پاکستان کے اندر گزشتہ چند برسوں سے یہ عام طور پر مشاہدے میں رہا ہے کہ جب بھی پاک فوج کے سربراہ کی میعاد ملازمت ختم ہورہی ہوتی ہے تو اس سے قبل کے چند ابتدائی مہینوں میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ اور سیاسی تجزیہ کار سے لے کر وقائع نگار تک سب اپنے اپنے مفروضے سیاسی منڈی میں فروخت کرنے لگ جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے بعض تجزیہ کار یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وزیرا عظم نوازشریف 14 اگست کو ایک اہم اور بڑا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس میں کوئی خبر نہیں تھی کہ یہ اعلان دراصل کس موضوع پر ہونے والا ہے؟ سب ہی جانتے تھے کہ یہ اعلان دراصل پاک فوج کے سربراہ سے متعلق ہوگا۔ مگر یہ واضح نہیں تھا کہ یہ اعلان کیا ہوگا؟ ا س پر مختلف اندازے، مفروضے اور تجزیئے کیے جارہے تھے۔ آخری دنوں میں زیربحث خبر کے مطابق وزیراعظم نوازشریف پاک فوج کے سربراہ کو اب توسیع دینے پر غور نہیں کررہے، بلکہ اُنہیں فیلڈ مارشل بنائے جانے پر غور کیا جارہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جب یہ اطلاع ٹیلی ویژن پر زیربحث لائی گئی تو فوراً ہی اس پر ردِ عمل بھی آگیا ۔ اورمقتدر حلقوں نے واضح کر دیا کہ اس قسم کی کوئی تجویز کسی بھی سطح پر زیرغور نہیں ۔ لہذا اسے موضوع بحث بنا کر ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

باخبر حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ وزیراعظم نوازشریف موجودہ پاک فوج کے سربراہ کو اُن کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی طرف مائل نہیں ۔ تاہم وہ حالات کے جبر کا بھی شکار ہیں۔ اور حالات کے جبر میں وہ کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں

یاد رہے کہ کچھ اسی نوع کی تجویز سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے وقت بھی زیر بحث تھی۔ مگر بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ بظاہر اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع سے بے نیاز نظر آنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فیلڈ مارشل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی او روہ پاک فوج کے سربراہ کے طور پر ہی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع چاہتے تھے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ اگر چہ اُنہیں بہلانے کے لیے ایک اور تجویز بھی تب زیر غور لائی گئی تھی کہ کیوں نہ اُن کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تجربے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہیں مختلف پیراملٹری فورسز اور ملک بھر کی پولیس کو ایک نظام کے تحت لاکر اُن کے ماتحت کردیا جائے۔ یہ تجویز پہلے ہی مرحلے پر مسترد کردی گئی تھی۔ پاک فوج کی سربراہی کرنے والا کوئی بھی شخص بآسانی جان لیتا ہے کہ اس ادارے کی موجودگی میں طاقت کا کوئی دوسرا مرکز فیصلہ کن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایسی تمام کہانیاں دراصل ایک خاص ماحول میں پھیلا کر اس کا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔

باخبر حلقوں میں یہ بات زیرگردش ہے کہ وزیراعظم نوازشریف موجودہ پاک فوج کے سربراہ کو اُن کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی طرف مائل نہیں ۔ تاہم وہ حالات کے جبر کا بھی شکار ہیں۔ اور حالات کے جبر میں وہ کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ جو واضح طور پر اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے انکار سے لے کر اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے متعلق بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ دراصل حالات کے دباؤ میں ہی وہ کریں گے۔ اس دوران میں ایک انگریز ی اخبار نے وزیراعظم نوازشریف کے سامنے پاک فوج کے سربراہ کے لیے ناموں کی ممکنہ فہرست بھی رکھ دی ہے۔ جو اُن کے کسی بھی ممکنہ فیصلے کے زیرغور نام ہو سکتے ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف گزشتہ ایک برس سے اس پر اپنے بہت ہی بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے تھے کہ آخر پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف کی نومبر کے اختتام پر مدتِ ملازمت میں توسیع کی جانی چاہئے یا نیے فوجی سربراہ کا انتخاب عمل میں لانا چاہئے۔ اگر نیے فوجی سربراہ کے انتخاب کا فیصلہ کرنا پڑے تو اُن کا ممکنہ انتخاب کیا ہو؟ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف کو وزیراعظم منتخب ہونے کے فوراً ہی بعد اپنا پہلا اہم فیصلہ یہی کرنا پڑا تھا اور بطور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف خود اُن ہی کا انتخاب تھے۔ تب اُنہیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ فوجی سربراہ کے انتخاب میں بہرصورت میرٹ پر دھیان دیں ۔ اور اپنے آدمی کے انتخاب کے چکر میں نہ پڑیں۔باخبر ذرائع کے مطابق اب وہ اس انتخاب کے معاملے میں ایک ذہن رکھنے کے باوجود آخری وقت تک اپنے پتے چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس پر اندازوں کا کھیل جاری ہے۔ تاہم 14 اگست کو کسی فیصلے کے اعلان کی افواہ خبر نہیں بن سکی۔