جے یو آئی نظریاتی کا ادھورا انضمام

جمعیت علمائے اسلام (ف) ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعت ہے۔ اس تنظیم کی جہاں بہت ساری کامیابیاں ہیں وہیں انہیں داخلی طور پر ہمیشہ انتشار ،بد نظمی اور دستور کی پامالی جیسی مشکلات و مسائل کا بھی سامنارہا ہے۔ مولانا سمیع الحق کی جمعیت (س) اسی سے نکلی ہے اور پھر 2008ء میں مولانا عصمت اﷲ ، حافظ فضل محمد بڑیچ ، مولانا عبدالقادر لونی ، مولانا حنیف اور عبدالستار شاہ چشتی جیسے دیرینہ اور پکے رہنماؤں اور کارکنوں کا اپنا راستہ الگ کرنا یقینا ایک اور بڑا دھچکا تھا۔ ان رہنماؤں نے جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے نام سے الگ جماعت کی بنیاد رکھی ۔ رفتہ رفتہ ان کی تنظیم بلوچستان کے کونے کونے میں قائم ہوگئی۔ خیبر پشتونخوا، سندھ اور پنجاب تک اپنی دعوت پھیلادی۔ مولانا عصمت اﷲ جو نہ صرف بڑے عالم دین ہیں بلکہ پارلیمانی سیاست کے تجربہ کے حامل سیاستدان بھی ہیں ،جمعیت نظریاتی کے امیر منتخب ہوئے۔ حافظ فضل محمد بڑیچ مرحوم (اﷲ انہیں جنت نصیب کرے ) وہ بھی معروف شخصیت تھے۔ سینیٹر رہ چکے تھے۔ ان کا شہرہ بلوچستان کے دینی حلقوں میں ایک ماہر مدرس کا تھا ۔

جمعیت علمائے اسلام نظریاتی دراصل جے یو آئی (ف) کے اندر مدتوں سے آئین اور دستور کی پامالی اور شخصیات کے غلبے کا نتیجہ ہے ۔نظریاتی قائم کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ پارٹی کے اندر ان افرادا ور رہنماؤں کا احتساب ہو جو مختلف اوقات میں وزارتوں اور حکومتی مناصب پر متمکن رہے ہیں۔

ان حضرات نے اس نئی جماعت کی قیادت سنبھالی۔ بلاشبہ انہیں بڑے جفاکش کارکن میسر آئے ۔یوں جمعیت نظریاتی نے سیاست کے میدان میں جگہ بنالی ۔ 2008ء کے عام انتخابات میں عبدالخالق بشر دوست ژوب سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور مولانا عصمت اﷲ نے قومی اسمبلی کی نشست پر جمعیت علمائے اسلام کے اسوقت کے صوبائی امیر مولانا محمد خان شیرانی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کرلی۔ گویامجموعی طور پر اس الیکشن میں جمعیت علماء اسلام (ف) کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور2013ء کے عام انتخابات میں اگر چہ جمعیت نظریاتی کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی مگر جمعیت (ف) کو بھی مشکل صورتحال سے دو چار کردیا۔

تو جناب! آخر کار مولانا عصمت اﷲ نے اپنے دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے انضمام کرلیا۔ یوں جمعیت نظریاتی میں بھی دراڑ پڑ گئی ۔ مولانا عصمت اﷲ ایک نیک نام عالم دین ہیں جو نظریاتی کے قیام سے قبل طویل عرصہ کنارہ کش رہے۔انہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی پالیسیوں پر تحفظات تھے۔ اب لمبے عرصے بعد دوبارہ رجوع تو کرلیا لیکن اپنے مشکل و قت کے ساتھیوں سے بچھڑنے کی بنیاد پر ۔ یہ انضمام 25فروری2016ء کو ہوا ۔ مولانا فضل الرحمان اس تقریب میں خود شریک تھے اور کہا کہ انضما م سے گلدستہ مکمل ہوگیا۔ میری دانست میں گلدستہ ابھی بھی اجڑا ہوا ہے۔ اس کی خوشبو اور تازگی تب لوٹ کر آئے گی جب جمعیت علمائے اسلام نظریاتی اپنے پورے حجم کے ساتھ پھر سے جے یو آئی ف کا حصہ بنے گی ۔ چونکہ یہ جماعت قائم ہے اور ا س کا حلقہ اثر اپنی جگہ کافی حد تک موجود ہے۔ البتہ مولانا عصمت اﷲ کے جانے کے بعد نقصان ضرور ہوا ہے۔ جمعیت نظریاتی میں انضمام کے موضوع پر تقسیم پیدا ہوئی ہے۔ مولانا عصمت اﷲ کے بقول جمعیت نظریاتی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے مستقل ارکان( جن کی تعداد40تھی )نے اپنے اصول و شرائط کی بنیاد پر انضمام کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ،جس کی مرکزی مجلس عاملہ نے لاہور کے اجلاس میں منظوری دی تھی۔ یعنی دونوں

جماعتوں کی کمیٹیوں کا رپورٹ مسودے پر اتفاق رائے ہوا اور اس مسودے کو مرکزی مجلس شوریٰ میں پیش کیا گیا۔ بحث مباحثے کے بعد بالآخرمسودے کو رائے شماری کیلئے پیش کیاگیا جس پر شوریٰ کے معزز اراکان نے واضح اکثریت کے بعد مشروط طور پر منظوری و تائید کی۔ جبکہ انضمام کے مخالف جے یو آئی نظریاتی کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ لاہور میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اول توصوبائی امراء اور جنرل سیکریٹریز کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا ۔ دوئم اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ انضما م کے حوالے سے مذاکرات چھ رکنی کمیٹی کرے گی اور انضمام کا آخری اجلاس جس میں جے یو آئی کی جانب سے نامزد ارکان اور مصالحتی کمیٹی کے ارکان موجود تھے بھی بے نتیجہ رہے۔ جس کے بعد طے یہ ہوا کہ آئندہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور شوریٰ سے جس مسودے کی منظوری کی بات ہوئی اس میں اصول و ضوابط کی پامالی ہوئی ۔ شوریٰ کے140ممبران کا یہ اجلاس نواں کلی میں مولانا عصمت اﷲ کے مدرسہ میں ہوا تھا جس میں انضمام مخالف ارکان نے سرے سے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا یعنی بائیکاٹ کیا۔ چنانچہ آئین میں ترمیم یا ایک بڑا فیصلہ کرنے کیلئے شوریٰ کی ایک تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے ، جبکہ فیصلہ وہاں موجود ساٹھ اکسٹھ ارکان نے کیا ۔ بقول ان کے یہاں تو پوری جماعت کی بنیادیں ختم ہورہی تھیں یعنی انضمام کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا جس کے لئے ایک تہائی اکثریت لازم تھی اور تمام فیصلے شخصی بنیادوں پر ہوئے۔ اور جس بنیاد پر انضما م ہوا ہے وہ بھی فی الوقت عمل پذیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جو مسودہ مولانا عصمت اﷲ کی جانب سے آئین میں ترمیم کے حوالے سے پیش کیاگیا ہے اُس پر غور مارچ میں جمعیت علمائے اسلام کے جنرل کونسل کے اجلاس میں ہوگا۔ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی دراصل جے یو آئی (ف) کے اندر مدتوں سے آئین اور دستور کی پامالی اور شخصیات کے غلبے کا نتیجہ ہے ۔نظریاتی قائم کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ پارٹی کے اندر ان افرادا ور رہنماؤں کا احتساب ہو جو مختلف اوقات میں وزارتوں اور حکومتی مناصب پر متمکن رہے ہیں۔ لہذا جن پر بدعنوانی ثابت ہو ان کا تنظیم سے اخراج ہو نیز پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کی مسلسل نظراندازی کا تدارک ہو۔ اسی طر ح ایسی شخصیات کو شامل نہ ہونے دیا جائے جو بد عنوانی اور جرائم کا پس منظر رکھتے ہوں ۔ پارٹی برملا افغانستان اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی اخلاقی حمایت کرے ۔ ان کا بنیادی مطالبہ رکن سازی کے مروجہ نظام کی تبدیلی کا بھی تھاجس میں تنظیمی انتخابات کے دوران تمام اصول و روایات کو بری طرح مسخ کیا جاتا ہے۔ مولانا عصمت اﷲ یقینا اپنے حامیوں کی ایک جمعیت کے ساتھ دوبارہ جے یو آئی (ف) کا حصہ بن گئے ہیں لیکن جن تحفظات و احساسات کا وہ سالوں سے اظہار کرتے آرہے تھے ،وہ اب بھی ایک سوال ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا مولانا عصمت اﷲ کا اطمینان کیسے ممکن ہوگا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی جیسے تیسے اپنی جگہ موجود ہے ۔ اچھا ہوتا کہ کچھ تاخیر گوارا کرکے انضما م کیلئے پوری جماعت کی مرضی و منشاء شامل کر لی جاتی ۔ جس وقت مولانا عصمت اﷲ مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ انضمام کا اعلان کررہے تھے عین اس وقت کوئٹہ کے میزان چوک پر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے تحت ایک بڑا جلسہ عام ہورہا تھا جو رات آٹھ بجے تک جاری رہا۔ جے یو آئی (ف) داخلی طور پر تقسیم ہے ۔ مولانا شیرانی کی امامت میں چند رہنماء اپنے پارٹی دستور و آئین اور نظم کو سرے سے خاطر میں نہیں لاتے۔ اطاعت نظم و جماعت سے دانستہ سر کشی کی ایک مثال مولانا محمد خان شیرانی کا پشین میں اجتماع سے خطاب ہے ۔ یہ اجتماع انضمام والے دن منعقد کیا گیا۔اس دن پارٹی کارکن انہماک سے انتظار میں تھے، ان کی مسرت دیدنی تھی مگر پشین میں جلسہ کرنے والوں نے گویا خود کو دانستہ طور پر لا تعلق رکھا ۔ مرکزی امیر کوئٹہ میں موجود تھے اور پشین میں باغیانہ طرز عمل کا مظاہرہ ہو رہا تھا ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بلوچستان میں قیادت نیک نام اور مخلص لوگوں کے ہاتھ میں ہے بالخصوص سکندر ایڈووکیٹ کی یہ سعی ہے کہ کارکن اور رہنما تنظیم اور دستور کی اطاعت پر کاربند ہوں۔ غرض صوبائی تنظیم کو خود سرگروہ کی سرکشی کا سامنا ہے جس سے پارٹی کی بنیادیں کمزور ہونے کا خدشہ ہے اور یہی خودسری و سرکشی جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے قیام کا موجب بنی تھی۔ چنانچہ یہ انضمام ادھورا ہے ۔مجھے ذاتی طور پر دلی خوشی ہوگی جب جے یو آئی نظریاتی پوری طرح جے یو آئی(ف) میں ضم ہو، چنانچہ ضروری ہے کہ نظریاتی بھی اب لچک دکھائے ۔