افغان مسئلہ اور کور چشمی

امریکا کی زیر دست کابل انتظامیہ داخلی و خارجی امور و معاملات میں قطعی بے اختیار ہے ۔ افغانستان کے نظام کار کی طنابیں مکمل طور پر امریکا کے ہاتھ میں ہیں۔ یہاں تک کہ کابل انتظامیہ کو اپنی خفیہ ایجنسی جو بھارت کے جاسوسی کے ادارے ’’را‘‘ کی رکھیل بنی ہوئی ہے ، پربھی مکمل دسترس نہیں۔ خصوصاً پاکستان کے خلاف یہ ادارہ ’’را ‘‘کے ہر سیاہ عمل میں بلارادہ شریک ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی کی تلخ حقیقت بھانپ چکا ہے۔ پاکستان کو اربوں ڈالر دینے اور بدلے میں کچھ نہ کرنے ، اسامہ بن لادن کا پاکستان میں قیام اور آئندہ پاکستان کو امداد نہ دینے کی گیدڑ بھبکیوں کی وجہ در اصل یہی تکلیف ہے۔ بازی امریکا کے ہاتھ سے بتدریج نکلتی جا رہی ہے ۔ چنانچہ یہ اظہاریہ امریکا کے اشتعال کی غماضی کرتا ہے۔
امریکا اس بدیہی شکست کا ذمہ دار خود ہے کہ جس نے معروضی حقائق کو دیکھے و سمجھے بغیر افغانستان میں اپنے قیام کو دوام دیا ۔اور تکیہ کابل انتظامیہ ، دوسری بھگوڑا شخصیات و حلقوں اسی طرح بھارت پر کیا ۔ بھارت کے اندر اہل الرائے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک غیر ضروری طور پر افغانستان میں فریق بن بیٹھا ہے۔ اور اپنی سرکار کو تجاویز دے چکے ہیں کہ’’ ماسکو اگر افغان مجاہدین کے ہاتھوں بے پناہ جانی ومالی اور ٹوٹ پھوٹ کا نقصان اٹھانے کے باوجود افغان طالبان سے روابط قائم کرچکا ہے۔ اور ماسکو میں امن کانفرنس منعقد کرکے افغان طالبان کو شر کت کی دعوت دی ۔طالبان بھارت کے خلاف نہیں ہیں، تو بھر بھارت سرکار افغان طالبان سے بات کیوں نہیں کرتی یا کیوں نہیں کرنا چاہتی ۔‘‘سچی بات یہ ہے کہ بھارت کی آنکھوں پر بھی سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس بڑی دفاعی طاقت و معیشت کو سرے سے افغانستان کی بدلتی جنگی و سیاسی صورتحال کا ادراک ہی نہیں۔ امریکی وفد نے خود افغان طالبان کی سیاسی قیادت سے دوحہ میں نومبر2018ء میں ملاقات کی ہے ۔ گویا رابطے براہ راست قائم کیے ہیں۔ امارت اسلامیہ کا ترجمان اس ملاقات کی تصدیق کر چکا ہے ۔ ان کے مطابق نومبر کی14،15اور16تاریخوں کو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اس مقصد کی خاطر فعال کردیے گئے ہیں۔ امریکی جنرل جنرل ’’آسٹن اسکاٹ ملر ‘‘کا طالبان کو شکست نہ دے سکنے اور افغان قبضہ کے سیاسی حل کا اعتراف چشم کشا ہے۔ اس اعتراف میں کابل انتظامیہ، اس کی خفیہ ایجنسی ، بھارت اور وہ شدت پسند تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں جو پاکستان میں شر اور ابتری چاہتی ہیں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔جنرل اسکاٹ ملر صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو ہرا نہیں سکتے اور امن کیلئے سیاسی گفت و شنید حل بتایا ہے۔ مزید بر اں امریکاکے چیئرمین جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف ڈ نفوررڈ بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’افغانستان میں طالبان ہارے نہیں اور 17سالہ جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے ۔ اگر طالبان بات چیت کیلئے تیار ہوجائیں تویہ بڑی کامیابی ہوگی۔ افغانستان کے معاملے پر ہمیں لگی لپٹی بات کرنے کی بجائے ان کی مضبوط پوزیشن کو تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ ہنوز ادھراُدھر کی مار رہی ہے ۔
پچھلے دنوں خبر آئی کہ امریکا اپنے بد ترین دشمن ایران کی بندرگاہ چا بہار جو بھارت کے تعاون سے تعمیر ہوئی کو امریکا کی اقتصادی پابندیوں سے استثنیٰ دے رہی ہے ۔ بھارت کو بعض پابندیوں سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ اور بندرگاہ کو افغانستان سے ملانے کیلئے ریلوے لائن کی تعمیر پر بھی امریکی پابندیوں کا اطلاق نہ ہوگا۔ ظاہر ہے امریکا افغانستان اور خطے میں بھارتی تعاون کا صلہ دے رہا۔نیز یہ سب کچھ پاکستان کے بغض میں کرنے جارہا ہے۔ کیوں نہ پاکستان بھی اپنے مفاد کے تحت ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل پر تندہی سے پیشرفت کرے۔ افغان جنگ میں پاکستان کا مجموعی نقصان نیٹو ممالک سے کئی گناہ زیادہ ہوا ہے۔ یہ جنگ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے سر منڈھ دی ۔ جس کا خمیازہ قوم و ملک دہشت گردی کی صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں ۔ بدلے میں امریکا پاکستان کی بدحالی کے درپے ہے۔ باو جود اس کے افغان طالبان ایک سیاسی و مزاحمتی حقیقت ہے جس کا اعتراف امریکی کر چکے ہیں ۔ ابھی9نومبرکو ماسکو میں تین روزہ امن کانفرنس ( ماسکو فارمیٹ)میں امارت اسلامیہ کا وفد محمد عباس ا ستانکزئی، کی قیادت میں بڑے طمطراق، اعتماد، قومی ،ملی اور دینی مؤقف کے ساتھ شریک ہوا ۔مولوی عبدالسلام حنفی، مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی ضیاء الرحمن مدنی اور محمد سہیل شاہین وفد کا حصہ تھے ۔ دنیا کے17ممالک کے نمائندوں جس میں امریکہ اور بھارت کے نمائندے بھی شریک تھے کے سامنے اپنے اصولی و مبنی بر حق مؤقف کا اعادہ کیا۔ طالبان وفد کے سربراہ نے قرار دیا کہ سترہ سالہ جنگ کا خاتمہ امریکی فوجیوں کے انخلاء سے مشروط ہے اور یہ کہ دنیا امریکاکے افغانستان سے انخلاء کی ضمانت دے ۔ افغان سیاسی جماعتیں ، مسند اقتدار پر بیٹھی شخصیات ، پاکستان کے اندر سیاسی جماعتیں، امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کا مطالبہ کریں تو اس صورت میں ان کا امارت اسلامیہ سے سیاسی عمل میں شرکت کی درخواست و مطالبہ بھی بجاہوگا ۔ اگر یہ حلقے و جماعتیں سرے سے افغانستان کو امریکی مقبوضہ سمجھتی ہی نہیں تو امارت اسلامیہ ان سے بات چیت اور مذاکرات کس حیثیت سے کرے ۔ان کی کوئی قانونی حیثیت ہے ہی نہیں۔بالخصوص اس تناظر میں پاکستان کی پشتون سیاسی جماعتوں کو بھی افغانستان کے معاملات میں چھٹی اُنگلی بننے کا حق حاصل نہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی بعض حوالوں سے معاملات کو سمجھ رہی ہے۔ افرا سیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کی بنیادی رکنیت کی معطلی کا تناظر بھی یہی ہے ۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو افراسیاب خٹک نے کہاکہ ان کو حکومت دلوانے کا مقصد افغانستان میں طالبان کو بر سر اقتدار لانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان بر سر اقتدار کیوں نہ آئے۔ کیا وہ پشتون و افغان نہیں ہیں؟ کیا ان لٹے پٹے محب وطن لوگوں نے ملک کے استقلال و خود مختاری کا علم بلند نہیں کیا ہے؟ یعنی افغانستان میں بھارت کا اثر و نفوذ درست ، کبھی روس کا غلبہ جائز تھا اور آج امریکی قبضہ عین جمہوریت و آزادی کے مصداق ہے۔ مگرا مارت اسلامیہ کا اقتدار میں آنا اورافغان وطن کی خارجی افواج سے خلا صی قبول نہیں ۔ افرا سیاب خٹک کی رکنیت کی معطلی کی وجوہات میں ایک وجہ پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق اور حمایت بھی ہے ۔اس تنظیم کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی پوری طرح سے معاون و مددگار ہے۔ یہ تنظیم باطن میں شر لیے ہوئی ہے ۔ گویا یہ وہ فریب ہے جس میں یہ حلقے ماضی میں بھی مبتلا رہے ہیں اور اب بھی معروضی حقائق و حالات کے حوالے سے کور چشمی و کوتاہ اندیشی میں مبتلا ہیں ۔
نظر آتے نہیں ہے بے پردہ حقائق اُن کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
بلوچ شدت پسند الگ دھوکے میں مبتلا ہیں ۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کے دروبست میں کامیاب تو ہو گئے ۔مگر انہیں یہ شعور نہیں کہ ا ن واقعات سے مقاصد امریکا اور بھارت کے پورے ہو رہے ہیں۔ بلوچ عوام اور ان کے مستقبل کیلئے یہ سراسر گھاٹے کا راستہ ہے۔بادی النظر میں پشتون زعماء دراصل قوم کو تقسیم کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں ۔ا مارت اسلامیہ کا وجود پورے عالم کے ہاں مسلمہ ہے ۔مگر یہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے ۔ کابل انتظامیہ ، امریکی و بھارتی مفادات کے محافظ کمانڈر وں کی پاکستان میں غائبانہ نماز جنازہ کی ادا ئیگی کا اہتما م کرتے ہیں ۔گویا یہ گروہی و علاقائی عصبیتیں ملت کا شیرازہ بکھیر دینے کی کوشش ہے۔تعجب ہے کہ اس نوع کے گمراہ کن فعل و عمل سے ذرا بھی نہیں چونکتے۔کاش ،یہ حلقے اپنی دھج بدلنے کی کو شش کریں!!