گورنر سندھ کا نیا سیاسی سفر؟

ishrat-ul-ebad

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کھلم کھلا رینجرز کی تعریف کرکے اپنا پالیسی بیان جاری کردیا جو اس امر کا اشارہ ہے کہ اب ایم کیو ایم سے ان کی راہیں واقعی جدا ہو چکی ہیں۔ وہ اب ایم کیو ایم کے گورنر نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے ہیں۔بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس کے اثرات جلد ظاہر ہونے والے ہیں۔ دبے الفاظ میں کہا جاسکتاہے کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے مستقبل کی علیحدہ راہیں چن لی ہیں اب وہ چاہیں تو کھل کر کام کرسکتے ہیں۔ اس سے قبل ایم کیو ایم نے اعلانیہ شکوہ کیا تھا کہ جب چند ماہ قبل نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپہ مارا تو گورنر سندھ نے اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اگرایسا ممکن نہ تھاتوکم از کم انہیں احتجاجاًمستعفی ہوجانا چاہیے تھا اور واپس اپنی پارٹی کو جوائن کرلینا ہی ان کیلئے بہتر تھالیکن انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے گورنرسندھ سے’’بول چال‘‘ بند کردی تھی اور تمام ذمہ داران کو حکم دیا گیا کہ وہ گورنر صاحب سے رابطہ نہ رکھیں لیکن کہا جاتا ہے کہ گورنر سندھ نے مختلف ذرائع سے ایم کیو ایم کے کئی اہم افراد کو رابطے میں رکھا۔کسی کو عید کارڈ بھیجے کسی کو فون کیا مشترکہ دوست کے ذریعے کسی کی خیریت دریافت کی تو کسی کا حال چال پوچھااور کسی نہ کسی طرح رابطوں کا سلسلہ نہیں منقطع ہونے دیاجو اب تک برقرار ہے کراچی کے سیا سی حلقوں میں چہ مگوئیاں عام ہیں کہ گورنر صاحب ایم کیو ایم میں گروپ بندی کیلئے کام کررہے ہیں لیکن فوری طور پر اس کا ثبوت نہیں مل سکانہ ہی ایسی کوئی کوشش نظر آئی کہ گورنر صاحب اپنی سابق پارٹی میں کوئی دھڑا بنارہے ہیں یا کسی خاص گروپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ رینجرز کے اعلیٰ حکام سے قریبی رابطہ رکھنے والے بعض افراد وثوق سے کہتے ہیں کہ رینجرز کی پلاننگ میں کسی طرح بھی یہ بات شامل نہیں کہ سیاسی جماعت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ گورنر صاحب ایسا کیا کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم ان سے ناراض ہے اور خود گورنر صاحب بھی ایسی صورتحال سے نکلنے کے لئے استعفیٰ دینے کی پیشکش بھی کئی بارکرچکے ہیں۔ گورنر سندھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب بھی وزیراعظم نواز شریف سے درخواست کرتے ہیں کہ مجھے فارغ کردیاجائے میرا استعفیٰ منظور کرلیاجائے مجھے آزاد کردیاجائے تو ہر بار میاں نواز شریف انہیں تھوڑے دنوں کے لئے’’ساتھ ساتھ ‘‘چلنے کے لئے آمادہ کرلیتے ہیں اورگورنر صاحب بھی مان جاتے ہیں۔ ایک دو بار تو ایسا ہوا کہ نواز شریف ڈاکٹر عشرت العبادکو مناتے مناتے ان کی سکیورٹی بھی بڑھا گئے۔ لگتا ہے کہ گورنر سندھ کو مستقبل میں کوئی اہم ذمہ داری بھی مل سکتی ہے کیونکہ سندھ میں دوسیاسی بحرانوں میں سے کوئی ایک کسی بھی وقت سنگین ہوسکتا ہے (1)گورنر راج کا نفاذ جوکہ آئین سے ماورا بھی ہوسکتا ہے اور اس کے لئے صدر مملکت کوئی آرڈیننس یا صدارتی حکم نامہ جاری کرسکتے ہیں (2)پیپلزپارٹی اجتماعی استعفے دے دے اور وفاق حکومت چلانے کے’’ایگزیکٹو پاورز‘‘گورنر سندھ کو منتقل کر دے۔اب یہ حکم نامہ قانونی ہوگا یا غیر قانونی آئینی ہوگایا غیر آئینی یہ بحث اپنی جگہ لیکن اِسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے پانچ سے چھ ماہ کا ’’اسٹے آرڈر‘‘ آرام سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ سندھ کے بارے میں ایوب کھوڑو نے کہا تھاکہ ’’ سندھ کے موسم ‘‘اور لیڈر کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب بدل جائے۔

گورنر سندھ کو مستقبل میں کوئی اہم ذمہ داری بھی مل سکتی ہے کیونکہ سندھ میں دوسیاسی بحرانوں میں سے کوئی ایک کسی بھی وقت سنگین ہوسکتا ہے

گورنر سندھ قسمت کے دھنی ہیں انہوں نے کئی حکمرانوں کو اپنی آنکھوں سے جاتے دیکھا ہے۔کئی کو الوداع کہا جبکہ بعض کو الوداع کہنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملا گورنر سندھ کی زندگی کا دلچسپ باب یہ ہے کہ کئی بار انہوں نے خود اپنی رخصتی کی خبریں اخبارات میں پڑھیں۔کبھی استعفے کی خبروں کی تصدیق اور کبھی خاموش رہ کر ان کی تردید بھی کی۔ گورنر سندھ نے اپنے آنے جانے کی خبروں کے ساتھ 12سال گزار دیئے ۔لگتا ہے کہ ابھی اقتدار کی ’’خار دار‘‘ کرسی سے ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اقتدار قسمت سے ملتا ہے لیکن کراچی میں کہا جاتا ہے کہ ایسا گورنر قسمت سے ملتا ہے جو کسی کے ساتھ بھی چل سکتا ہے اور سب کو چلتا بھی کرسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی نے دھمکی دی ہے کہ وہ ’’خود ‘‘کو بچانے کیلئے رینجرز کی ’’پاورز‘‘میں کمی پر غور کررہی ہے جس کیلئے سندھ اسمبلی میں ترمیمی بل بھی لایا جائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ گورنر سندھ جیسے ’’اسپیڈ بریکر‘‘کی موجودگی میں یہ بل سندھ اسمبلی میں کیسے پیش ہوگا؟اور گورنر اجلاس چلنے بھی دیں گے یا نہیں؟اور اگر اجلاس ہوبھی گیا تو کیا گورنر صاحب بل پر دستخط کر دیں گے ؟یہ آسان کھیل نہیں ہے۔مرحوم پیر پگارا نے کہا تھا کہ محمد خان جونیجو (سابق وزیر اعظم )نے اگر یہ سوچا بھی کہ ضیا الحق (صدر)کے اختیارات کم کردیں گے تو ضیا الحق انہیں نکال باہر کریں گے اور ایسا ہی ہوا جونیجو صاحب اقتدار سے باہر ہوگئے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے اپنی پارٹی کے سربراہ محمد خان جونیجو کا ساتھ دینے کے بجائے جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا۔موجودہ صورتحا ل میں تو سارا کھیل نواز شریف کے ہاتھ میں ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس کی وکٹ کس طرح اڑاتے ہیں؟