کراچی میں ضمنی الیکشن اور ایم کیو ایم کا گراف؟

MQM-rally

کراچی کے 2 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ’’ لو ٹرن آؤٹ‘‘ نے سب کو حیران کردیا ہے۔ این اے 245 اور پی ایس 118میں کامیابی تو ایم کیو ایم کو ملی لیکن تبصرے اور تجزیے بھی جاری ہیں کہ ایم کیو ایم کا گراف کم کیوں ہواہے؟ ووٹرز کہاں چلے گئے؟ کراچی کی تاریخ میں کبھی ایسے ضمنی الیکشن نہیں ہوئے جس کا ٹرن آوٹ 9 فیصد تک گرگیا ہو۔ ایسا تو 1993 میں بھی نہیں ہوا تھا جب ایم کیو ایم نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حلقہ این اے 245 کی نشست سے مستعفی ہونے والے ایم کیو ایم کے رکن ریحان ہاشمی نے ایک لاکھ 15ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے امید وار کو 55 ہزار ووٹ ملے تھے، لیکن ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم یہاں سے39 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئی اور ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو صرف 3 ہزار ووٹ ہی ملے۔ اس حلقے میں ٹرن آوٹ صرف 11فیصد رہا۔ اسی طرح صوبائی حلقے پی ایس 115میں جہاں ایم کیوایم کے نامزد ڈپٹی میئر ارشد وہرہ نے55 ہزار ووٹ لئے تھے اس بار ایم کیو ایم کو 11ہزار ووٹوں سے کامیابی ملی اور یہاں بھی ٹرن آؤٹ 9 فیصد سے نہ بڑھ سکا۔

کراچی کے حالیہ دونوں ضمنی انتخابات پر سب سے خوبصورت تبصرہ ایک سیاسی کارکن نے اسی طرح کیا ’’یہ بڑا شرمیلا الیکشن تھا‘‘خاموشی سے ہوا نتیجہ بھی فوراً آگیا اور کسی طبقے نے نہ تو اس الیکشن پر کوئی تجزیہ کیا اورنہ ہی کراچی کی سیاست پر کوئی مثبت اور منفی اثر ڈالا۔

کیا کراچی کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے؟ یا آپریشن کے اثرات جاری ہیں؟ عام تعطیل نہ ہونے کے باعث لوگ باہر نہیں نکلے یا کشیدہ ماحول اور سیاسی جماعتوں میں تصادم نے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے نہیں دیا؟ ان سوالات کے جواب تلاش کئے جارہے ہیں، لیکن ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی سیاست سے آوٹ ہوچکی ہے اوراس کی جگہ تحریک انصاف بھی نہ لے سکی جبکہ پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے اثرات کتنے ہیں، یہ 24 اپریل کو باغ جناح میں جلسے سے بھی واضح ہوجائے گا۔ واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ پڑھا لکھا مہاجر ووٹر فی الحال خاموش ہوگیا ہے۔۔۔۔ اس نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور وہ ابھی تیل کی دھار دیکھ رہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس وقت ’’پانامہ لیکس‘‘ کی ہنگامہ خیزی سمیٹنے میں مصروف ہے، انہیں طویل عرصے کا راشن مل چکا ہے اس لئے کراچی کے ضمنی الیکشن نتائج ٹرن آؤٹ وغیرہ پر کسی نے بھی اپنا وقت ’’ضائع‘‘ نہیں کیا ورنہ آج توپوں کے رخ ایم کیو ایم کی جانب ہوتے کہ ووٹر کہاں گئے؟ کیا آپ کی جماعت ووٹروں کوگھروں سے نکالنے کے لئے شہرت رکھتی ہے؟ اس بار کیوں ایسا نہیں ہوا؟ کیا مصطفی کمال کی باتیں اور سرفراز مرچنٹ کے ثبوت آپ کے ووٹ بینک کو’’سوچنے‘‘ پر مجبور کر رہے ہیں؟ کیا اب مہاجر ووٹر آپ کو بار بار آزما کر تھک چکا ہے؟ کیا مہاجر ووٹر کو متبادل مل گیا ہے؟ اس طرح کے کئی سوالات ایم کیو ایم سے کئے جاسکتے تھے۔ اینکر حضرات توماضی کے ووٹوں کا ریکارڈ لے کر بیٹھ جاتے، موازنہ کرتے، تقابلی جائزہ ہوتا کہ ٹرن آؤٹ کوکس کی نظر لگ گئی؟ لیکن ’’پانامہ لیکس ‘‘جب تک ’’زندہ ‘‘ہے کوئی اور معاملہ الیکٹرانک میڈیا پر چند منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا۔

ایم کیو ایم کے قریبی حلقے’’ضمنی انتخابات‘‘ میں فتح کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن ان کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے امیدوارکو چند گھنٹے قبل اپنی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل کرنا سیاسی اور اخلاقی طور پر غلط فیصلہ تھا یا صحیح؟ اس کا جواب کوئی بھی نہ دے سکا۔

عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے اور اس حوالے سے اگر حلقہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تو ’’زیادتی‘‘ کا لفظ بھی چھوٹا معلوم ہونے لگے گا۔ این اے 245 کا حلقہ پانچ لاکھ ووٹروں پر مشتمل ہے اور اتنے ووٹرہوں تو بلوچستان کی پانچ سے چھ نشستیں بن جاتی ہیں۔ بلوچستان میں توسات سے آٹھ ہزار ووٹوں پر ایم پی اے اور 10سے 15ہزار ووٹو ں پر ایم این اے منتخب ہوتا ہے۔ اس طرح کی حلقہ بندیاں کراچی کی نشستیں کم رکھنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ کراچی کے تمام حلقے ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں جہاں ووٹروں کی تعداد اتنی ہے کہ آج تک ٹرن آؤٹ 55 سے 60 فیصد سے اوپر نہ جاسکا۔ کراچی میں کس کا کتنا ووٹ بینک ہے، اس کا درست جائزہ لینے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان حلقوں کو مزید تقسیم کیا جائے تاکہ ووٹروں کی انتخابی عمل میں دلچسپی بڑھے، ان کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور وہ پولنگ اسٹیشن تک بآسانی جاسکیں۔ صحیح حلقہ بندیاں اسمبلی میں صحیح نمائندگی کو جنم دیتی ہیں۔

کراچی کے حالیہ دونوں ضمنی انتخابات پر سب سے خوبصورت تبصرہ ایک سیاسی کارکن نے اسی طرح کیا ’’یہ بڑا شرمیلا الیکشن تھا‘‘خاموشی سے ہوا نتیجہ بھی فوراً آگیا اور کسی طبقے نے نہ تو اس الیکشن پر کوئی تجزیہ کیا اورنہ ہی کراچی کی سیاست پر کوئی مثبت اور منفی اثر ڈالا۔ اگرکراچی میں اس طرح کے الیکشن ہوتے رہے تو کراچی آہستہ آہستہ غیر سیاسی اور خاموش ہوجائے گا اور جمہوریت کی جو ہلچل نظر آتی ہے وہ ختم ہوجائے گی۔ جس طرح ملک بھر کے جاگیرداروں کے حلقوں میں عام انتخابات کے بعد خاموشی ہوجاتی ہے اور لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوجاتے ہیں، آج کل کراچی بھی ایسا ہی منظر پیش کر رہا ہے۔ کراچی جاگیرداروں سے ’’خاموش جنگ‘‘ ہار گیا ہے اور جاگیردار کراچی کو’’بے جان‘‘ کر کے جیت گیا ہے۔ اب کراچی کے ٹکڑوں میں بٹ جانے کا عمل شروع ہوگا۔ کراچی تقسیم ہوا تو اس شہر کی معیشت اور قومی ٹیکس کی وصولیوں پر گہرا اثر پڑے گا۔ کراچی کی معیشت کا چلتا ہوا سرکل ملک بھر کی معیشت کو متحرک رکھتا ہے، کراچی کو کچھ ہوا تو اس کے اثرات سے کراچی کی معیشت ڈوبے گی اور بے روزگاری کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ جرائم بڑھ جائیں گے اور پاکستان سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے ایک ’’خطرناک‘‘ ملک بن جائے گا اس لئے کچھ کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچ لیا جائے۔