ایم کیو ایم اور مائنس پلس کا کھیل؟؟

ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے… نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ …چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا… ہلچل نہیں تھمی… اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ چند روز قبل ایم کیو ایم کو پاک سرزمین پارٹی کے ’’نقب زنوں‘‘ سے خطرہ تھا لیکن اب اپنے ہی لگائے ہوئے نعرے تکلیف کا باعث بن رہے ہیں اور زندگی بھر ساتھ نبھانے والے ہاتھ چھڑا کر بھاگ رہے ہیں۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی ہے: پاکستان کے خلاف نعرے بازی قبول نہیں ہم اب ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ جواز اتنا وزنی ہے کہ جانے والے کو ’’غدار یا لوٹا‘‘ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے تو محب وطن ہونے کی مبارکباد مل رہی ہے۔ بعض لمحے زندگی میں ایسے بھی آتے ہیں جب حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں اور کم ہمت لوگ بھی حالات کے ہاتھوں شیردل بن جاتے ہیں۔

کراچی ابھی تک مخمصے میں ہے۔ کراچی کے پرجوش سیاسی کارکن اسی سوچ میں غلطاں ہیں کہ انہیں اب کیا کرنا چاہیے؟ ایک طرف وطن سے محبت ہے تو دوسری جانب وطن کی عظمت پر حرف آ رہا ہے غداری کے طعنے مل رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے تو خیر درگزر کی پالیسی اپنانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن چمن کی آبیاری کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہیں ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینئر فاروق ستار کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم کے قافلے کو بچایا جائے لیکن مصطفی کمال کی جانب سے ’’گوریلا حملے‘‘ جاری ہیں۔ وہ سچی اور پکی معافی مانگنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ رابطہ اس طرح ختم کرو کہ سب کو یقین آ جائے ڈرامہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے کارکن گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ بقول شاعر:

ناکام تمنا دل اِس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا

چندر گپت موریا کی سلطنت کے مشیر اور ہندو فلسفی چانکیا نے کہا تھا کہ ’’سیاست میں معمولی غلطی ماں کے شکم میں پرورش پانے والے بچے کو مار سکتی ہے‘‘۔ سیاستدانوں کو دو ہی چیزیں ختم کرتی ہیں… غلطی یا موت۔ اکثر سیاستدان غلطی کے ہاتھوں شہید اور موت کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ کچھ غلطیاں ایسی ہیں جن کا کفارہ ہے لیکن بعض غلطیاں ایسی ہیں جن کا کفارہ نہیں صرف چھٹکارا ہے۔ اب یہ غلطی کرنے والوں کو سوچنا پڑے گا کہ غلطی کیا ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کس نے کروائی؟ اور کیوں کروائی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس غلطی سے کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا؟ تاریخ میں غلطیاں نشانِ عبرت بھی بن جاتی ہیں اور انقلاب کا سبب بھی۔ جدید عہد کے مشہور مورخ پروفیسر ٹوئن بی نے کہا تھا کہ ’’قلوپطرہ کی ناک اگر آدھی انچ چھوٹی ہوتی تو یورپ کی جنگی تاریخ ہی مختلف ہوتیـ‘‘… لیکن یہاں سوال ناک کا نہیں بلکہ ملک کی ناک کا ہے… پاکستان کی عظمت کی قسم سب نے کھائی ہے۔ فاروق ستار پنسل کے آخری سرے پر لگے ’’ہلکی کوالٹی‘‘ کے ربڑ کو مسلسل استعمال کر رہے ہیں لیکن تصحیح نہیں ہو پا رہی مخالفین کو تسلی نہیں ہو رہی ناقدین کی تشفی نہیں ہو رہی غلطی کا ازالہ نہیں ہو رہا… اور تاک میں بیٹھے دشمن موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہ تو ایسا موقع ہے جو خود فراہم کردہ ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کے ’’ٹینکوں‘‘ اور پرنٹ میڈیا کی ’’توپوں‘‘ کا رخ اس وقت فاروق ستار کی جانب ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ’’پرائم ٹائم ‘‘پر ایم کیو ایم کا ’’قبضہ ‘‘ہے۔ پریس کانفرنس اور جوابی پریس کانفرنس کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ صورتحال روز بروز تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ تعلق اور لاتعلقی کا موضوع زیر بحث ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ دس دن میں سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ نبیل گبول کا کہنا ہے کہ سب ایک ہو جائیں گے۔ مصطفی کمال کی نظر میں مینڈیٹ پرانا ہو گیا ہے اور نیا مینڈیٹ لئے بغیر کوئی خود کو ایم این اے ایم پی اے اور سینیٹر نہ سمجھے۔ تبصروں کی ’’گولہ باری ‘‘بھی جاری ہے۔ کوئی کہتا ہے: ایم کیو ایم پر پابندی لگنی چاہیے… تو کوئی کہتا ہے: صرف پابندی سے کیا ہو گا؟ کوئی دفاتر مسمار کئے جانے کو درست قرار دیتا ہے تو کسی کی نظر میں یہ سیاسی انتقام ہے۔

ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر کیا سوچ رہا ہے؟ کیا وہ ایک بار پھر پتنگ پر مہر لگائے گا ؟ وہ کون سے نظریے کے تحت ووٹ دے گا؟ ایک جانب نظریہ پاکستان ہے تو دوسری جانب 22 اگست والا نظریہ… کچھ نعرے لگے اور کچھ نعرے تبدیل بھی ہو گئے… مائنس الطاف کے بعد بھی کیا ایم کیو ایم کے ووٹر کی مہر پتنگ پر ہی لگے گی… یا پھر وہ پاک سرزمین پارٹی کو آزمائے گا؟ کیا فاروق ستار درست کہہ رہے ہیں کہ چار سے پانچ ایم کیو ایم بننے والی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ووٹ بینک کی تقسیم کیسے ہو گی؟ بعض نقاد فاروق ستار کو ’’منی الطاف حسین‘‘ کہہ رہے ہیں جبکہ چند باخبر حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد ایم کیو ایم نے اپنی صاحبزادی افضا کو اپنی زندگی میں ہی ایم کیو ایم کی نئی قائد بنانے کا بھی فیصلہ کر رکھا ہے جس کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لندن سے یہ اعلان سامنے آ سکتا ہے اور اس صورت میں ایم کیو ایم پاکستان کے پاس بھی اسے قبول کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کا نیا داؤ کیا ہو گا؟ وہ اسے کس طرح ’’ہینڈل ‘‘کرے گی؟ یہ سوال وقت کی پرورش کے ساتھ ہی بڑا بھی ہو جائے گا۔