ریٹائرڈ سرکاری افسران سیاست میں آنے کے لیے بے تاب

سیاست میں سرکاری افسران کی شمولیت کا سہرا سابق بیورو کریٹ امتیاز شیخ کو جاتا ہے جو پہلے آغا طارق پٹھان کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملے اور ضلع لاڑکانہ میں ڈی سی بنے پھر جب جام صادق وزیر اعلیٰ سندھ بنے تو امتیاز شیخ نے ایک مرتبہ پھر آغا طارق پٹھان سے ملے اور ان کو لے جاکر جام صادق سے ملاقات کی ۔ جام صادق نے ان کو اپنے آبائی ضلع سانگھڑ میں ڈی سی لگایا جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو کام کا بندہ ہے تو انہوں نے امتیاز شیخ کو بطور ڈی ایم جی افسر ملازمت سے استعفیٰ دلایا اور ان کو صوبائی سروس گروپ میں گریڈ18 میں براہ راست بھرتی کیا اور ان کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں او پی ایس پر پہلے ایڈیشنل سیکریٹری چیف منسٹر ہاؤس مقرر کیا اور چند ماہ بعد ان کو گریڈ 19 میں ترقی دے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس کا قائم مقام سیکریٹری بنا دیا اور پھر ان کو گریڈ 20 میں ترقی دے دی۔ یوں صرف ایک سال یا سوا سال میں امتیاز شیخ نے 18 سے 20 گریڈ کا سفر طے کیا۔
جام صادق کے بعد مظفر شاہ کی حکومت آئی اور جب 93 ء میں وہ حکومت ختم ہوئی تو امتیاز شیخ مقدمات سے بچنے کے لیے بیرون ممالک چلے گئے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور عبداللہ شاہ نے امتیاز شیخ کے خلاف تحقیقات شروع کردی تھیں ۔پی پی پی کا دوسرا دور انہوں نے بیرون ممالک گزارا جب لیاقت جتوئی وزیر اعلیٰ بنے تو امتیاز شیخ واپس آئے لیکن اس بار لیاقت جتوئی نے ان کو وہ لفٹ نہیں کرائی جو جام صادق نے انہیں کرائی تھی۔ لیاقت جتوئی نے ان کی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تقرری نہیں کی لیکن وہ سیکریٹری صحت ضرور بن گئے پھر جب پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو امتیاز شیخ نے ملازمت جاری رکھی لیکن کچھ عرصہ بعد استعفیٰ دے دیا اور 2002 ء میں انہوں نے سندھ ڈیموکریٹک الائنس (ایس ڈی اے) بن اکر سیاست میں شمولیت اختیار کیاور میجر جنرل احتشام ضمیر جعفری کی ہدایت پر ایس ڈی اے کے پلیٹ فارم پر اپنے محسن آغا طارق پٹھان کے مقابلے میں صوبائی حلقہ شکارپور سے الیکشن لڑے حالانکہ آغا طارق پٹھان اس وقت جیل میں تھے الیکشن میں وہ آغا طارق پٹھان سے ہار گئے پھر انہوں نے ضمنی الیکشن لڑا اور گمبٹ سے ایم پی اے بن گئے ۔پرویز مشرف، ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین کے منظور نظر رہے یوں وہ موسمی پرندے کی طرح اڑتے اڑتے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ان کو دیکھ کر کئی سرکاری افسران بھی سیاست میں آگئے۔
آفتاب میمن بھی ایک ریٹائرڈ سیکریٹری تھے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایم کیو ایم میں شامل ہوئے لیکن جب 22 اگست کا واقعہ رونما ہوا تو آفتاب میمن بھی گھر بیٹھ گئے اور سیاست میں غیر فعال ہوگئے اس طرح ریٹائرڈ ڈی آئی جی علی اکبر بھنگوار بھی ضلع دادو میں لیاقت جتوئی کے کیمپ میں شامل ہوئے حال ہی میں سابق ڈی سی او کراچی جاوید حنیف نے بھی ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ ایسی درجنوں مثال موجود ہیں جب ریٹائرڈ سرکاری افسران نے سیاست میں شمولیت اختیار کی ہو۔ سرکاری افسران کا اب 80 فیصد رجحان سیاست کی جانب ہوگیا ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ وہ بطور افسر جو کچھ کمایا اس کے بدلے ان پر نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن کے مقدمات بنے اب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مقدمات بھگتیں گے اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمائے ہوئے مال کے تحفظ کے لیے سیاست کریں اور پھر سیاسی تحفظ حاصل کریں جب وہ ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہوتے ہیں تو ان کے پاس اچھا خاصا تجربہ بھی ہوتا ہے اور وہ حکومتوں کو تجربہ کی بنیاد پر مشورے بھی دیتے ہیں بعض اوقات وہ مشورے مفید بھی ثابت ہوتے ہیں اس لیے ان کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے یہ تجربہ ہی تو ہے جس کی بنا پر پی پی پی کے کٹر مخالف امتیز شیخ اب پی پی پی کے روح رواں بن چکے ہیں ۔ جام صادق کے دور میں پاکستا ن پیپلزپارٹی کے رہنماؤں پر مقدمات بنانے کا سہرا امتیاز شیخ کو جاتا ہے اور ماضی میں پیپلزپارٹی کی قیادت جتنی نفرت جام صادق کرتی تھی انھیں اس سے کہیں زیادہ نفرت امتیاز شیخ سے بھی تھی لیکن اب وہی امتیاز شیخ پی پی پی میں شامل ہوکر خودپاکستان پیپلزپارٹی کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اورکچھ بعید نہیں ہے کہ آنے والے وقتوں میں پی پی پی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار امتیاز شیخ ہی ہوں ۔ اس وقت ایک درجن سے زائد ریٹائرڈ بیورو کریٹ تیار بیٹھے ہیں کہ ان کی سیاست میں شمولیت ہوجائے اور وہ مختلف سیاسی قیادتوں سے رابطے میں ہیں سیاست کا یہ المیہ ہے کہ اس میں پہلے ہی کوئی اصول نہیں ہے لیکن اب تو سیاست میں وہ ریٹائرڈ افسران شامل ہوچکے ہیں جنہوں نے دوران ملازمت دل کھول کر کرپشن کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد تحقیقاتی اداروں میں دھکے کھانے کے بجائے سیاست میں آگئے یوں اپنا کمایا ہوا مال بچانے کے چکر میں سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے سیاسی جماعتیں بھی اس معاملہ پر خاموش ہیں ۔