منصفِ اعلیٰ سندھ سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کا سراغ نہ مل سکا!

owais ali shah

دہائیوں سے بے امنی اور دہشت گردی کا شکار شہر قائدمنصف اعلیٰ عدالت عالیہ سندھ کے صاحبزادے اویس سجاد کے اغوا کے بعد قیام امن کے اداروں کے لیے ایک مرتبہ پھر چیلنج بن گیا ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پولیس سے لے کر رینجرز کے ذمہ داران تک سب نے کراچی میں امن وامان کی بہتری کے دعوے کیے تھے۔ یہاں تک کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے جو جو حوالے دیئے جاتے ہیں ، اُن میں شہرقائد کی میں کامیابی کا ذکر بھی لازماً کیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک کھلا دعویٰ تھا کہ کراچی میں اغوا کے واقعات پر تقریباً قابو پالیا گیا ہے۔ مگر ایڈوکیٹ اویس شاہ کے اغوا نے ان تمام دعووں کو شرمندہ کردیا ہے۔ یہ کوئی سادہ نوعیت کے اغوا کا واقعہ نہیں۔ بلکہ اس کی تفصیلات پر غور کیا جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی اور بے امنی کی قوتیں نہ تو کسی آپریشن سے پریشان ہوتی ہے اور نہ ہی اس سے اُنہیں کوئی فرق پڑتا ہے۔ وہ اسے اعصاب کی جنگ میں اپنی مرضی اور اپنے وقت کے حساب سے جب جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ دہشت گردی کے ذمہ داران میں سےکچھ کی گرفتاریاں یا مقابلوں میں قتل یا پھر اغوا کی وارداتوں کے کچھ ذمہ داران کو گرفتار کر کے مسئلے پر قابو پالینے کا دعویٰ دراصل خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔دراصل اویس شاہ کے اغواکاروں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بھرم کو توڑا ہے۔

اغوا کی واردات کے عینی شاہدین سپر مارکیٹ کےگارڈز اتنی تربیت سے بھی محروم تھے کہ آگے بڑھ کرکوئی رکاؤٹ پیدا کرتے۔ حد تویہ ہے ک اُنہوں نے اس واقعے کو دیکھ کر پولیس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا۔

اویس سجاد شاہ کو 20 جون کو کلفٹن میں آغا سپر مارکیٹ سے اغوا کیا گیاجب وہ کچھ اسنیکس اور ڈرنکس خرید کر قریب واقع دوستوں کی محفل میں جارہے تھے، تو اُنہیں سپر مارکیٹ کے با ہر سے ہی اغوا کر لیا گیا۔ان کے موبائل فون کے حاصل شدہ ریکارڈ کے مطابق اس میں کوئی مشکوک کال نہیں تھی۔ تما م رابطے معلوم اور متعلقین کے تھے۔ مگر ریکارڈ کے مطابق اُن کا موبائل کینٹ اسٹیشن سے بند ہوا ۔ ظاہر ہے کہ یہ اغوا کے بعد ہی بند ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اویس شاہ کا موبائل اغوا کے بعد کینٹ اسٹیشن تک کھلا چھوڑا گیا تھا۔ کیا یہ اغواکاروں کی طرف سے گمراہ کرنے کی کوئی دانستہ کوشش تھی؟ اس کا درست جواب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی نہیں ۔

جس سفید گاڑی میں اویس شاہ کو اغوا کیا گیا، کیا یہی گاڑی منگھوپیر یا پھر بلوچ کالونی تک اویس شاہ کو ساتھ لے کر گئی یا پھر یہ گاڑی ان راستوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گمراہ کرنے کے لیے دوڑائی جاتی رہی؟ اس امکان پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا کہ آغا سپر مارکیٹ پر اغواکاروں نے اغوا کے فوراً ہی بعد کیمروں کی آنکھ سے بچتے ہوئے اویس شاہ کو دوسری گاڑی اور دوسرے لوگوں کے حوالے کردیا ہو۔

اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی ذراسا عجیب دکھائی دیتا ہے۔پولیس ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اویس شاہ کی گاڑی پنجاب چورنگی سے برآمد کی گئی؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اویس شاہ جب آغا سپر مارکیٹ سے اغوا ہوا تو اُن کی گاڑی پنجاب چورنگی تک کیسے پہنچی؟ کیا اغوا کاروں کا کوئی دوسرا گروپ اُن کے مددگار کے طور پر وہاں موجود تھا جنہوں نے اویس شاہ کی گاڑی دانستہ طور پرپنجاب چورنگی تک چھوڑی۔ مگر وہ ایسا کیوں کر رہے تھے؟ ظاہر ہے کہ اغواکاروں کی منصوبہ بندی میں یہ خطرہ موجود رہا ہوگا کہ اویس شاہ کے اغوا ہونے کےذرا ہی دیر میں اس کا علم فوراً ہی ذرائع ابلاغ یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہوجائے گا۔ اور منصف اعلیٰ سندھ کے صاحبزادے ہونے کے باعث تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے فوراً ہی حرکت میں آجائیں گے۔ چنانچہ لازمی طور پر اویس شاہ کے اغوا کی منصوبہ بندی میں اُنہیں جہاں بھی لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہوگا، اس پہلو کو لازماً اغوا کاروں نے اپنے ذہن میں رکھا ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے کلفٹن میں واقع ایک سپرمارکیٹ میں پرہجوم جگہ سے کھلے بندوں اغوا کی واردات بھی کراچی ایسے آپریشن زدہ شہر میں بھی شام سات سےساڑھے آٹھ بجے تک کسی کے علم میں نہیں آسکی۔ اغوا کی واردات کے عینی شاہدین سپر مارکیٹ کےگارڈز اتنی تربیت سے بھی محروم تھے کہ آگے بڑھ کرکوئی رکاؤٹ پیدا کرتے۔ حد تویہ ہے کہ اُنہوں نے اس واقعے کو دیکھ کر پولیس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا۔ اغوا ، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا دہائیوں سے شکار شہر کے گارڈز ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں اور ذمہ داری کا انداز الگانے کے لیے یہ پہلو کافی ہے۔

شرمناک طور پر اس واردات کا علم پولیس کو تب ہوتا ہے جب اویس شاہ کے اہل خانہ افطاری کے موقع پر اُنہیں گھر میں موجود نہیں پاتے تو اُنہیں فون کرتے ہیں جو خلاف معمول بند ملتا ہے۔ بعد ازاں بھاگ دوڑ کرنے پر اندازا ہوتا ہے کہ اویس شاہ کی گاڑی تو پنجاب چورنگی یا کہیں اور موجود ہے مگر وہ نہیں۔ تب اویس شاہ کی پراسرا گمشدگی کا معمہ پولیس کے علم میں اہل خانہ کی طرف سے لایا جاتا ہے۔ جو رات نو بجے تک یہ تعین کر نے میں کامیاب ہو پاتے ہیں کہ یہ گمشدگی نہیں بلکہ اغوا کی ایک منظم واردات ہے۔

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب تک اویس شاہ کا سراغ لگانے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ ان سطور کے رقم کیے جانے تک ان اداروں کے پا س بتانے کے لیے صرف دوچیزیں ہیں۔ اولاً اویس شاہ کے موبائل فون کا ڈیٹا، جس میں موصوف کے رابطوں کی تفصیلات ہیں۔ ان رابطوں میں کوئی بھی ایسا مجہول رابطہ نمبر نہیں جس پر کوئی بھی شک ظاہر کیا جاسکے۔ لہذا یہ کوئی ایسا سراغ نہیں جس پر تحقیقات کو آگے بڑھایا جاسکے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس ضمن میں دوسرا اہم سراغ وہ ویڈیو فوٹیجز ہیں جو شہر بھر کی مختلف شاہراؤں سے حاصل کی گئی ہے جس میں اُس گاڑی کی حرکت اور سمت کا اندازا لگایا جاسکے جو سفید رنگ کی ہے، جس کی سبز رنگ کی سرکاری نمبر پلیٹ جعلی تھی اور جس میں سوار مسلح افراد نے پولیس کی کیپ پہنی ہوئی تھی۔ دستیاب ویڈیو فوٹیجز کی روشنی میں اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سامنے آنے والے دعووں کے مطابق اغواکاروں کی گاڑی آخری بار منگھوپیر کے علاقے میں دیکھی گئی۔ جب کہ ایک دوسرے دعوے کے مطابق یہ گاڑی بلوچ کالونی اور پھر ٹیپو سلطان روڈ تک نظر آئی اورپھر اس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کےپاس سوچنے کے لیے ابھی تک یہ مفروضہ بھی نہیں تھا کہ جس سفید گاڑی میں اویس شاہ کو اغوا کیا گیا، کیا یہی گاڑی منگھوپیر یا پھر بلوچ کالونی تک اویس شاہ کو ساتھ لے کر گئی یا پھر یہ گاڑی ان راستوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گمراہ کرنے کے لیے دوڑائی جاتی رہی؟ اس امکان پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا کہ آغا سپر مارکیٹ پر اغواکاروں نے اغوا کے فوراً ہی بعد کیمروں کی آنکھ سے بچتے ہوئے اویس شاہ کو دوسری گاڑی اور دوسرے لوگوں کے حوالے کردیا ہو۔

حیرت انگیز طور پر ابھی تک اس افسوس ناک وقوعے کے بارے میں جزیات کے ساتھ غور کر نے کی کوئی ٹھوس کوشش بھی سامنے نہیں آسکی۔ اگرچہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس عام طورپر اس نوع کے واقعات میں اُٹھنے والے سنجیدہ سوالات پر یہ موقف اختیار کرکے جان چھڑاتی ہے کہ اس ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس معلومات کو اس لئے عام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ جرائم کے مرتکبین تک پہنچ کر اُن کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ محدود دائروں میں غوروفکر کے عادی اور مجرموں سے ہی حاصل معلومات کو پریس بریفنگ میں بیان کرنے کے ماہر ادارے ہیں۔ اس ضمن میں ٹھوس تجزیاتی کام کہیں پر بھی نہیں پایا جاتا۔ اس کی حساسیت کا اندازا سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اُس بیان کے تجزیئے سے کیا جاسکتا ہے، جو حیران کردینے والا اور ان کے انداز فکروعمل کا آئینہ دار ہے۔ان تمام کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ اویس شاہ کا اغوا سودے بازی کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بدلے عسکریت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ایک ذرا سا اس موقف پر غور کرنے سے بآسانی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ازخود اس واقعے کا کوئی ٹھوس تجزیہ موجود نہیں۔ اور اگر خوش قسمتی سے اویس شاہ کی رہائی کے لیےکوئی فوری کامیابی نہیں مل سکی تو ان کا مکمل انحصار دراصل خود اغواکاروں کی طرف سے کسی رابطے کے انتظار پر ہی ہوگا۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اس پر فوری رپورٹ طلب کر لی ہے یا وزیراعظم نوازشریف نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری رہائی کے لیے تمام کوششو ں کو بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے، کیا اس نوع کی ہدایات سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ اس ضمن میں سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُن کی رہائی میں کس ادارے کا بنیادی کردار ہے؟ تو اُنہوں نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان سے جب وہ فرار ہوکر بلوچستان پہنچنے میں ازخود کامیاب ہو گیے تو بلوچستان سے لاہور پہنچنے میں کسی ادارے نے کردار ادا کیا ہو، تو کیاہو،مگر عملاً اُن کی رہائی میں کسی کا کوئی بھی کردار نہیں۔ یہ جواب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت کے خلاف ایک پورا مقدمہ ہے۔