حکومت اور عسکری تعلقات میں سب کچھ اچھا نہیں! عسکری اداروں نے پنجاب کا رخ کر لیا

Nawaz-Raheel-Sharif

حکومت اور عسکری اداروں کے مابین تعلقاتِ کار میں پیدا ہونے والی ابتری تاحال برقرار ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق پاناما لیکس کے دنوں سے سیاسی اور عسکری تعلقات میں بڑھنے والی خلیج تاحال پاٹی نہیں جاسکی۔ اس تناظر میں عسکری اداروں کا پنجاب کی طرف رخ کرنا کافی معنی خیز قرار دیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب کی جانب سے آپریشن کومبنگ کی پنجاب میں وسعت کی عام طورپر مخالفت کی گئی ہے۔ مگر فوج کی جانب سے گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اصرار کیا جارہا ہے کہ اس کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ قومی افق میں پائے جانے والی کشیدگی کے ان سایوں میں یہ ایک اہم اور معنی خیز بات ہے کہ وزیراعظم نوازشریف (جو ان دنوں اپنی سیاسی مصروفیات میں دانستہ کمی کی طرف مائل ہے ) آج سبی کوہلو شاہراہ کی افتتاحی تقریب میں شریک تھے تو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی آج کا ہی دن گلگت میں سی پیک منصوبے سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کے لیے چُنا۔ یہی نہیں بلکہ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بھی ذرائع ابلاغ کو ایک لمبی بریفنگ کے لیے مدعو کیا۔ اگر گلگت کے خطاب اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ کا بغور جائزہ لیا جائے تو دونوں میں زبردست پیغامات موجود ہیں ۔ پاک فوج کے سربراہ نے اس موقع پر کہا کہ سی پیک کی حفاظت کریں گے۔یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ پاک فوج نے سی پیک کے حوالے سے تقریباً ملکیت لے لی ہے۔ مگر اس بہاؤ میں اُن کے یہ الفاظ خاصے معنی خیز تھے کہ وہ مودی کی تمام چالوں کو سمجھتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی مطلب ملک کے داخلی حالات سے بھی جڑا ہوا ہے؟ یہ سوال سیاسی ماہرین کے غوروفکر کا نیا موضوع بن گیا ہے۔

اُدھر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ کہا کہ پنجاب میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں میں سے دو گرفتاریاں القاعدہ سے منسلک دہشت گردوں کی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار گرفتاریاں کیوں زیربحث نہیں آئی؟ کیا یہ گرفتاریاں سیاسی نوعیت کی حامل ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ فیصل آباد اور قریب کے کچھ علاقوں سے ایسی گرفتاریاں ہوئی ہیں جو سیاسی منظرنامے میں ایک بھونچال پیدا کرسکتی ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ دنوں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے نوید کمانڈو کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے سنسنی خیز انکشافات نے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل پیداکردی ہے ۔ مذکورہ گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں اب عسکری ادارے اشفاق چاچو نامی ایک شخص کی گرفتاری کے لیے کوشاں ہیں ۔ ذرائع کے مطابق یہ گرفتاری پنجاب اور وفاقی حکومت کے لیے بہت سی نئی زحمتیں پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ اشفاق چاچو کو پنجاب کے کچھ سیاست دانوں کا ’’صولت مرزا‘‘ باور کیا جاتا ہے۔ اس سے قطع نظر ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ کہنا ہی بہت زیادہ معنی خیز ہے کہ پنجاب سے القاعدہ سے منسلک دہشت گرد پکڑے گئے۔ کیونکہ اس جملے سے یہ نتیجہ بآسانی نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دہشت گرد پنجاب کے علاقوں میں بھی موجود ہیں۔ تو پھر پنجاب کے علاقے آپریشن ضرب عضب سے محروم کیوں ہیں؟ اور کیوں نہ وہاں کومبنگ آپریشن کو وسعت دے دی جائے؟ ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت اس کی مسلسل مزاحمت کررہی ہے ۔ مگر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے بھی ایک صاف پیغام دیا ہے کہ کراچی میں الطاف حسین کی طرف سے جو دل آزارخطاب ہوا اُس پر ہونے والا ایکشن کیا تھا؟ اس موضوع پر پاکستان کے سیاسی وصحافتی حلقوں نے کم ہی توجہ دی کہ اس خطاب کے بعد عسکری حلقوں نے اپنے اقدامات کے لیے کسی سیاسی فیصلے کا انتظار نہیں کیا تھا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہو اکہ عسکری حلقے اب پنجاب کے لیے بھی سیاسی فیصلوں کا انتظار نہیں کریں گے؟ اطلاعات کے مطابق ستمگر ستمبر کافی ولولہ انگیز مہینہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے سیاسی ماہرین صرف خطابات ہی نہیں سن رہے بلکہ سیاسی اور عسکری قیادت کی سرگرمیوں میں اُن کی بدن بولی پر بھی بہت دھیان دے رہے ہیں۔