طالبان نے حکومت کی تشکیل میں اندرونی و بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا

بیس سال تک طویل اور صبر آزما جنگ کے بعد دنیا کی سپر پاور طاقت امریکا کو اس کے تین درجن سے زائد اتحادی ممالک کے ساتھ شکست دینے والے طالبان نے بآلاخر اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔ افغانستان کی صورتِ حال نہایت غیر معمولی تھی، حکومت سازی کے عمل میں جہاں اندرونی دباؤ تھا، وہیں دوست اور دشمن ممالک طالبان کو حکومت سازی کے عمل میں اپنے بالواسطہ پیغامات سے متاثر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر دنیا کو عسکری، سفارتی اور سیاسی طور پر شکست دینے والے طالبان نے نئی حکومت کے قیام میں بھی نہایت بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلے میں مختلف قسم کے دباؤ کو پوری طرح مسترد کردیا۔ طالبان نے نئی حکومت کے قیام میں اپنا اولین اور مرکزی منصب سربراہ ِ ریاست اپنے امیر المومنین ہیبت اللہ اخوند کے لیے مخصوص کردیا۔ ملاہیبت اللہ اخوند شیخ الحدیث والتفسیر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق طالبان شوریٰ میں یہ طے پایا ہے کہ وقت کے امیر المومنین جو بھی ہوں گے، وہ اس منصب پر فائز ہوں گے۔طالبان حکومت کا دوسرا اہم ترین منصب وزیراعظم کا ہے، جس کے لیے طالبان کے اولین امیر المومنین ملا عمر مجاہد کے ابتدائی چار ساتھیوں میں سے ایک ملاحسن اخوند کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مختلف کتابوں کے مصنف ملا حسن اخوند طالبان کی صفوں میں نہایت عزت واحترام کا مقام رکھتے ہیں، وہ طالبان شوری کے رہبر کے طور پر بھی اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

ملا حسن اخوند زادہ کی نوازشریف سے ملاقات کی ایک تصویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبان کے اولین دورِ اقتدار میں یہ وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں یہ نائب وزیراعظم کے منصب پر 1996 سے 2001 تک فائز رہے۔ تب طالبان کے وزیراعظم کے طور پر مرحوم ملامحمد ربانی فرائض انجام دیتے تھے۔ ملا محمد حسن اپنے اسی منصب پر پاکستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں جہاں اُن کی ملاقات سابق وزیراعظم نوازشریف سے بھی ہوئی تھی۔

مولوی عبدالسلام حنفی نسلاً ازبک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبان نے اپنی وسیع البنیا دحکومت کے قیام میں مختلف نسلی اکائیوں کا بھی خاص لحاظ رکھا ہے۔ وزیراعظم ملاحسن اخوند کے پہلے نائب ملا عبدالغنی برادر پشتون نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ اُن کے دوسرے نائب مولانا عبدالسلام حنفی نسلاً ازبک ہیں۔وہ طالبان صفوں میں محقق سمجھے جاتے ہیں اور قطر مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔

اسی طرح ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں میں سے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ فاتح پنج شیر قاری فصیح الدین کو دیا گیا جو نسلاً تاجک ہیں۔ طالبان کابینہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں اہم ترین مناصب پر وہ لوگ فائز کیے گئے ہیں جو گوانٹا ناموبے جیل کے علاوہ پاکستان میں بھی قید وبند کی صعوبتیں اُٹھاتے رہے۔ ملا عبدالغنی برادر پاکستان میں ایک طویل عرصہ قید رہے۔ افغان انٹیلی جنس کے سربراہ ملا عبدا لحق واثق کو بنایا گیا ہے جو بارہ سال تک گوانٹا ناموبے جیل میں رہے۔ اب اس منصب پر وہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں سے جب افغانستان کے اہم ترین معاملات طے کررہے ہوں گے تو اُن میں ایک جارح ملک امریکا بھی ہوگا۔

ملا عبدالحق واثق
———

اسی طرح وزیراطلاعات مولوی خیراللہ خیرخواہ اور معاون وزیر دفاع مولوی محمد فاضل بھی گوانٹاناموبے جیل میں بارہ سال تک قید رہے ہیں۔طالبان کے اولین امیر المومنین ملا محمدعمر کے صاحبزادے ملا محمد یعقوب کو وزیر دفاع بنایا گیا ہے۔ طالبان کابینہ کی تشکیل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ طالبان اپنے مقاصد اور نظریات کی روح کے ساتھ مکمل طور پر وابستہ ہیں اور اُنہیں جدیدیت اور ترقی کے نام پر گمراہ کرنے کی کوششیں حکومت سازی کے عمل میں مکمل ناکام رہی ہیں۔