نقلی شہد سے ہوشیار!

11737875_858669664216441_4932766355259783262_n

ایبٹ آباد سے مانسہرہ اور پھر شمال کی جانب آخر تک سفر کرتے چلے جائیں آپ کو سڑک کے کنارے شہد کی مکھیوں کے ’’فارم ‘‘ نظر آئیں گے ۔ سرسبز پہاڑی جنگلوں اور پھلوں کے باغات کی بدولت اس علاقے میں قدرتی شہد کی بہتات ہے ۔ مسافر اور شہد کے متلاشی یہاں سے شہد خریدتے ہیں۔ “ناران” اور ’’ جھیل سیف الملوک ‘‘ کے مقام پر آپ کو بہت سے ایسے افراد شہد فروخت کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ جنہوں نے بالٹی یا پلاسٹک کے برتن میں شہد کی مکھیوں کے چھتے اور شہد ڈالا ہوتا ہے ۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اصلی شہد فروخت کر رہے ہیں ۔سڑکوں کے کنارے باقاعدہ مکھیاں پال کر حاصل کیا جانے والا شہد ان کی رائے میں نقلی ہوتا ہے ۔ ان سے اگر ان کے سکونتی علاقے کے بارے میں دریافت کیا جائے تو یہ ’’ سوات ‘‘ ،’’ مہانڈری‘‘ ، ’’اٹک ‘‘ یا ’’ کالاباغ ‘‘ کے علاقوں کا نام لیتے ہیں ۔ آپ ان سے ان کا شناختی کارڈ طلب کریں تو جواب ملتا ہے وہ سکیورٹی والوں کے پاس ہے ۔ ان لوگوں نے محکمہ جنگلات کاغان فارسٹ ڈویژن کی طرف سے حاصل کر دہ ایک سلپ اُٹھائی ہوتی ہے ۔ جس پر انہیں شہد فروخت کرنے کی اجازت دیے جانے کے بارے میں مختصر تحریر موجود ہوتی ہے ۔ جھیل سیف الملکو ک پر آجکل عالمگیر نام کے ایک سرکاری اہلکار کی جانب سے یہ پروانہ جاری کیا جاتا ہے ۔ جو مبینہ طور پر سو روپے کے عوض ایک ہفتہ کے لئے یہ اجازت نامہ جاری کرتا ہے۔

پائی خیل کے مکھیارے تو اپنی اس ’’ پروڈکٹ ‘‘کے مضر اثرات سے شاید واقف نہیں ہیں لیکن خریدنے والوں کو شہد خریدتے وقت ’’ پائی خیل کے مکھیاروں ‘‘ کو نہیں بھولنا چاہئے

ان لوگوں کے ساتھ تھوڑی سی بھی محبت کا اظہار کیا جائے اور میانوالی کی مقامی زبان میں بات کی جائے تو یہ بآسانی تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان کا تعلق میانوالی کے علاقے ’’ پائی خیل ‘‘ سے ہے ۔ ’’ پائی خیل ‘‘ میانوالی شہر سے 25 کلومیٹر دور کالاباغ روڈ پر واقع ایک قدیمی قصبہ ہے ۔ یہاں کے لوگوں کو چینی سے شہد تیار کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ یہ “ہُنر ” تقریباً ایک صدی سے ان لوگوں کی دسترس میں ہے ۔ بی بی سی اُردو سروس کے عزیز اللہ خان مروت نے بہت پہلے اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی نشر کی تھی ۔ عزیز اللہ خان مروت جب اس رپورٹ کی تیاری کے لئے میانوالی آئے تھے تو پائی خیل سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست نے ان کی موجودگی میں ایک کلوگرام چینی ، سیب کے دو ٹکڑوں ، سونف ، سفیدے کے پتوں اور ٹاٹری کی معمولی سی مقدار کی آمیزش سے دو بوتلیں شہد تیار کیا تھا ، جس پر پچاس روپے لاگت آئی تھی ۔ چینی کی قیمت میں اضافے کے سبب یہ لاگت اب تقریباً 80 روپے ہو گئی ہے ۔ ہمارے سامنے تیار کیا جانے والا یہ شہد ان تمام طریقوں پر پورا اُترتا تھا جو اصلی شہد کی جانچ کے لئے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔

“پائی خیل ” کے مکھیارے ملک کے مختلف علاقوں میں شہد فروخت کرتے ہیں ۔ اپنی نایابی اور قیمت میں مہنگا ہونے کے سبب آج کل حسبِ ضرورت ہی خریدا جا تا ہے ۔ زیادہ تر بیماری یا بچوں کو دینے کے لئے شہد خریدا جا تا ہے ۔ بعض لوگ شہد آنکھوں میں بھی ڈالتے ہیں ۔ اگر چینی کے شیرے یا ٹاٹری والے شہد کو آنکھوں اور بچوں کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ بہت زیادہ مضر ثابت ہو سکتا ہے ۔ ’’ پائی خیل ‘‘ کے مکھیارے تو اپنی اس ’’ پروڈکٹ ‘‘ کے مضر اثرات سے شاید واقف نہیں ہیں لیکن خریدنے والوں کو شہد خریدتے وقت ’’ پائی خیل کے مکھیاروں ‘‘ کو نہیں بھولنا چاہئے۔