طالبان کی حالیہ پیش قدمی، افغانستان میں نیا کھیل شروع ۔۔۔؟

taliban-fighter

گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ چین میں متعدد دھماکے ہوئے ہیں۔اس کے بعد افغانستان کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت آنے لگی جب طالبان نے اپنی نئی پیش قدمی کا آغاز کردیا اور پہلے مرحلے میں قندوز پر قبضہ جما لیا۔اس کے ساتھ ہی افغان صدر اشرف غنی نے کرزئی کی زبان میں پاکستان سے متعلق بات شروع کردی اور اپنے ایک انٹرویومیں پاکستان کو دوست ملک کے بجائے ہمسایہ ملک کہہ ڈالا۔اس سے پہلے پاکستان کی پوری کوشش تھی کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کروا کر انہیں کسی قابل عمل منصوبے پر آمادہ کیا جاسکے۔لیکن اچانک ملا عمر کی موت کی خبر افشا کرکے مذاکرات میں رکاوٹ ڈال دی گئی۔ اس کے بعد حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔اب صورتحال یہ ہے کہ اشرف غنی کی پوزیشن کرزئی والی بھی نہیں رہی ہے اور خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اشرف غنی نے دوبارہ پاکستان کی جانب جھکاؤ دکھایا تو ممکن ہے افغان انٹیلی جنس میں موجود کرزئی کی باقیات انہیں نقصان پہنچا دے۔

جہاں تک چین میں ہونے والے حملوں کی بات ہے توحملے چاہے چین میں ہوں یا شمالی افریقا یا مشرق وسطیٰ میں یاعوام اور حکومتوں کے درمیان نئی رسہ کشی ہو، سب ایک ہی بڑے کھیل کا حصہ ہیں ، مسلم دنیا کے باخبر حلقے اس بات سے واقف ہیں کہ یہ سارا کھیل کس مقصد کے تحت رچایا جارہا ہے۔۔۔عالمی صہیونیت کے سیسہ گروں نے اس حوالے سے ہر ملک کے خلاف کھیلنے کے لئے الگ کارڈ رکھا ہوا ہے۔اسی لئے چین کے خلاف ہمیشہ تبت اور سنکیانگ کا کارڈ کھیلا جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادیوں کی افغانستان میں جو درگت بنی ہے اس نے اسے یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کھیل ختم ہوچکا ۔ افغانستان اس کھیل کا مرکز جزوقتی طور پر بنا تھا اور اس بڑے کھیل کا ایک اہم حصہ قرار دیا گیا تھالیکن اب یہ اہمیت سمٹ کر ایک مرتبہ پھر مشرق وسطی کی جانب مرتکز ہے۔اس بڑے اور اصل کھیل کو سمجھنے کے لئے ہمیں پچاس کی دہائی کے تاریخی سیاق وسباق کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔

طالبان سے امریکی مطالبات میں کیپسین کی معدنی دولت کو گرم پانیوں تک پہنچانا، چین کے مشرقی صوبوں میں ہلچل پیدا کرنے والے عناصر کے لیے بیس کیمپ کی فراہمی اور عرب مجاہدین کو اُن کی حکومتوں کے سپرد کرنا شامل تھے

1953ء میں ایران کے قومی انقلاب نے ( جس کی قیادت ایرانی لیڈر ڈاکٹر مصدق کررہے تھے) مغرب کو بنیادوں سے ہلا دیا تھا ۔ یہ ایران کے تیل کی دولت کو قومیانے کا انقلاب تھا۔ اس طرح ایرانی تیل پر سے یورپی کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کردی گئی تھی تاکہ اس دولت کو صرف ایرانی عوام کی فلاح کے لئے استعمال کیا جائے۔ امریکا اور برطانیا نے مغربی تیل کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر امریکی سی آئی اے کی سرکردگی میں ایک کارٹیل تشکیل دی اور یوں ڈاکٹر مصدق کی جماعت تودہ پارٹی پر الزام عائد کیا کہ وہ سوویت یونین کے ساتھ مل کر خطے میں کمیونزم کے لئے کام کررہی ہے ۔حالانکہ یہ سراسر الزام تھا۔دوسری جانب ایران سے بھاگے ہوئے شاہ ایران کو واپس لانے کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ الغرض ایک طویل سازش اور جدوجہد کے بعد ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے شاہ ایران کو دوبارہ ایرانی عوام پر مسلط کردیا گیا۔شاہ ایران نے اقتدار دوبارہ حاصل کرکے ایک مرتبہ پھر ایران کے تیل کی تنصیبات مغربی کمپنیوں کے حوالے کردیں اور یوں ایرانی عوام ایک مرتبہ پھرشاہ کی شکل میں مغربی استعماریت کی زد میں آگئے۔ ڈاکٹر مصدق نے ایرانی عوام کی خاطر مغرب سے ٹکر لے کر اپنے اقتدار کو تو قربان کردیا لیکن آنے والے دور میں مسلمانوں کے لئے مغربی استعماریت سے نجات کی ایک شمع روشن کردی۔یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور برطانیا نے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر نیٹو کی تشکیل کے بعد دوسرا بڑا قدم یوں اٹھایا کہ خطے میں مغربی مفادات اور اسرائیل کی حفاظت کے لئے عسکری موجودگی کو یقینی بنانے کے انتظامات شروع کر دیئے گئے۔ امریکا کی یہی وہ کوششیں تھیں جو آگے چل کر ’’امریکی سینٹرل کمانڈ‘‘ کی شکل اختیار کرگئیں ۔

امریکا کی ان کوششوں کو سب سے زیادہ سہارا مشرق وسطی میں عرب قومیت کی تحریک نے دیابظاہر تو مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو مغرب کا دشمن قرار دیا گیا لیکن درحقیقت ان کی اس تحریک نے عالم عرب کو باقی غیر عرب اسلامی دنیا سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاجو تمام کا تمام ا سرائیل اور مغربی ممالک کے حق میں جاتا تھا۔ ان ہی معاملات کی بنا پرمصر کے صدر جمال عبدالناصر اور سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید ؒ کے درمیان زبردست اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ عربوں کے درمیان اسی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل نے مصر پر حملہ کرکے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز کیا اور عربوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا گیا۔عربوں کی قومی حمیت کو جس انداز میں ٹھیس پہنچی تھی اس سے امریکا اور اسرائیل پوری طرح آگاہ تھے۔ جمال عبدالناصر تو اس صدمے سے چل بسے لیکن دوسری جانب شاہ فیصل شہید ؒنے اسرائیل کی بھرپور مخالفت کا آغاز کیا۔ جمال عبدالناصر کے بعد ان کے جانشین انورالسادات نے اقتدار سنبھالا تو شاہ فیصل شہید ؒ نے ان سے خاصی قربتیں بڑھا لی تھیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سادات جمال عبدالناصر کی طرح صرف عرب قومیت کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ شاہ فیصل شہید ؒ نے انورالسادات کے دماغ میں یہ بات اتار دی تھی کہ عرب عوام کی نظر میں وہی ان کا لیڈر بن سکتا ہے جو اسرائیل سے شکست کا بدلہ لے۔ شاہ فیصل شہید ؒ اور انور السادات اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ امریکا اور یورپ کبھی عربوں کو اسرائیل پر مکمل فتح حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ اس لئے منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اسرائیل پر حملہ تیز اور مختصر وقت کے لئے ہوگا اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ علاقہ واپس لینے کی کوشش کی جائے گی۔اردن کے شاہ حسین کے اسرائیل کے ساتھ قریبی روابط کی بنا پر شاہ فیصل شہیدؒ، انورالسادات اور شام کے حافظ الاسد نے انہیں اس منصوبے سے دور رکھا ۔ لیکن معاملے کی سن گن پڑنے پر شاہ حسین خود اپنا ہیلی کاپٹر اڑا کر تل ابیب جاپہنچے اور اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کرکے انہیں عربوں کے عزائم کے بارے میں خبردار کیا۔اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کے اس وقت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ گفتگو کی ٹیپ سننے کے باوجود ہم شاہ حسین کی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔

یوں عربوں نے اچانک حملہ کرکے اسرائیل کی جانب سے کھینچی گئی بارلے لائن عبور کی اور صحرائے سینا میں زبردست پیش قدمی کرکے اسرائیلیوں کے قدم اکھاڑ دیے۔لیکن صحرائے سینا کے وسط میں پہنچ کر مصری فوج نے اپنی پیش قدمی روک دی۔منصوبے کے مطابق اسرائیل نے جو داغ عربوں کے چہرے پر ملا تھا، اسے دھو دیا گیا تھا اور اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے تاثر کا بت پاش پاش ہوچکا تھا ۔ اس جنگ کو عربوں نے جنگ رمضان کا نام دیا تھا ،جس میں عرب فوجیوں نے بڑھ چڑھ کر داد شجاعت دی۔ثابت ہوچکا تھا کہ عربوں نے 1967ء کی جنگ عرب ازم کے جھنڈے تلی لڑی اور مار کھا گئے لیکن 1973ء کی جنگ رمضان اسلام کے جھنڈے تلے لڑی اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکااور یورپ کو بھی ششدر کردیا۔ اس دوران شاہ فیصل شہیدؒ نے مغرب کے خلاف تیل کا ہتھیار بھی استعمال کیا جس نے امریکا کو بھی سر سے پیر تک ہلا دیا تھا۔ اس صورتحال نے امریکا اور یورپ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مشرق وسطی کے تیل کے معاملے میں شاہ فیصل بھی ایران کے ڈاکٹر مصدق کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایک بات اور ذہن میں رہے کہ مغرب کے تیل کی کمپنیوں نے پوری ایک دہائی تک یعنی 1960ء سے لیکر 1970ء تک تیل کی قیمت میں ایک پینی کا بھی اضافہ نہیں ہونے دیا تھا اور عربوں کے تیل کو اپنے باپ کا مال سمجھ کر استعمال کیا تھا۔ لیکن جنگ رمضان کے بعد عربوں نے تیل کی پابندی تو ہٹائی لیکن تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا۔ اسی صورتحال کو دیکھ کر امریکا نواز شاہ ایران نے بھی ’’پر پرزے‘‘ نکال لئے اور امریکا اور یورپ سے ایرانی تیل کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔اس صورتحال نے مغرب کو مزید پریشان کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور نیٹو نے مشرق وسطی کی منہ زور ہوتی ان حکومتوں کو لگام ڈالنے کے لئے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ صدر نکسن کے مشیروں نے تو انہیں یہاں تک مشورے دیئے تھے کہ مشرق وسطی میں امریکا اور یورپ کی فوجیں اتار کر یہاں کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا جائے۔ 1974ء کے بعد امریکا اور شاہ ایران کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی جس کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ ایران نے امریکی اخبارات کو دیئے گئے اپنے انٹرویوز میں امریکا کی یہودی لابی کے خلاف بھی زبان کھولنا شروع کردی۔اس لئے پہلے شاہ فیصلؒ کو سعودی عرب میں شہید کرا کرخطے کے باغی ہوتے حکمرانوں کو سخت پیغام دیا گیا ۔اس کے بعد شاہ ایران کو ایرانی انقلاب کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اسے ذلیل اور رسوا کرواکر مصر میں کینسر کے مرض میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ستر کی دہائی کا ہنگامہ خیز دور اس وقت دو آتشہ ہوگیا جب 1979ء میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ امریکا انورالسادات کو گھیر کر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی شکل میں اسرائیل کی سرحدیں بڑی حد تک محفوظ کرا چکا تھا ۔دوسری جانب سعودی عرب میں شاہ فیصل شہیدؒاور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے امریکا مخالف لیڈر دنیا سے رخصت کئے جاچکے تھے۔اب امریکا کو افغانستان میں بڑی جنگ کے لئے ’’اسلام‘‘ کی ضرورت تھی اس لئے وہ افغانستان کے گرد واقع اہم مسلم ممالک پاکستان اور ایران میں ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے خوف زدہ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جب انورالسادات جیسا لبرل لیڈر بھی جہاد کی ’’فضیلت‘‘ پر تقریریں کرتا تھا ۔ اس تمام منظر نامے میں مغرب کی تمام تر توجہ افغانستان پر مرکوز تھی۔اسرائیل کوکم از کم ایک دہائی تک سکھ کا سانس لینے کی مہلت مل چکی تھی۔ عرب ممالک کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں افغانستان آرہے تھے ۔ نوے کی دہائی کے فورا بعد جب سوویت یونین کی عظیم سلطنت افغانستان کے پہاڑوں میں پاش پاش ہوچکی تھی امریکا اور یورپی ممالک نے ایک مرتبہ پھر اپنے چہرے سے نقاب اُلٹ دی۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعد افغانستان کو جان بوجھ کر متحارب گروپوں کے سپرد کردیا گیا کیونکہ جنرل ضیاء الحقؒ افغانستان میں مکمل امریکی ایجنڈے کے مطابق حکومت سازی کے مخالف تھے۔اب ایک طرف افغانستان میں خانہ جنگی ہورہی تھی تو دوسری جانب مشرق وسطی میں ایران عراق جنگ کے شعلے بھڑکا دیئے گئے۔اسرائیل عراق کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت سے خوفزدہ تھا۔ اس خوف سے نجات کے لیے امریکا اور مغربی ممالک نے اعلانیہ اور خفیہ ہر دوطریقوں سے دونوں ممالک کو اسلحہ مہیا کرکے نہ صرف آٹھ برس تک ان دونوں مسلم ملکوں کو آپس میں لڑایا بلکہ اس کی آڑ میں کئی بلین ڈالر کا اسلحہ بھی فروخت کیا۔عرب ممالک نے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کی بنا پر مصر کو عرب لیگ سے نکال دیا تھا ۔اس لئے اسے دوبارہ عربوں کی صفوں میں گھسانے کے لئے ضیاء الحق کو استعمال کیا گیا جنہوں نے مراکش کے شہر رباط میں ہونے والی او آئی سی کی کانفرنس میں جذباتی تقریر کرکے مصر کو دوبارہ رکنیت دلوائی۔ یوں مصر کے اسرائیل کے درمیان قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کو دیگر عرب ممالک کے لئے مثال بنا کر پیش کردیا گیا ۔

روس اور چین امریکی عالمی مہم جوئی کے دوران اپنی سرحدیں بند کرکے ترقی کی معراج تک جاپہنچے

نوے کی دہائی کے دوران چین اور روس نے معاشی ترقی کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح اپنی سرحدوں تک محدود کرلیا تھاتو دوسری جانب افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے طالبان کی تحریک نے سر اٹھالیا ۔امریکا اور یورپ کی تیل کی کمپنیاں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر وسطی ایشیا اور قفقاز کے تیل پر نظریں جما بیٹھیں اور اس کے لئے طالبان انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی تاکہ کیسپین کے تیل اور گیس کے ذخائر کی ترسیل کے لئے افغانستان کی سرزمین کو بڑی پائپ لائنیں بچھانے کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے طالبان کی بڑھتی ہوئی فتوحات پر کوئی قدغن نہ لگائی۔ جب طالبان نے تمام افغانستان میں امن قائم کردیا تو امریکا اور یورپ نے اگلے منصوبے کے لئے قدم بڑھایا۔ منصوبے کے مطابق افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان انتظامیہ نہ صرف کیسپین کی معدنی دولت کو گرم پانیوں تک پہنچانے والی پائپ لائنوں کی تنصیب کی اجازت دے بلکہ ڈالروں کے عوض ان کی حفاظت کا ٹھیکہ بھی لے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت چین کے مشرقی صوبوں میں ہلچل پیدا کرنے والے عناصر کو یہاں بیس کیمپ قائم کرنے کی اجازت دے۔ امریکا کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے والے عرب مجاہدین کو ان کی حکومتوں کے سپرد کردیا جائے کہیں ایسا نہ ہو یہ ہزاروں عرب مجاہدین مشرق وسطی میں اسرائیل کے لئے نئی درد سری بن جائیں۔امریکہ کو یہ تو علم تھا کہ افغانی کرایہ لے کر استعمال ہونے کو تیار تو ہوجاتے ہیں لیکن اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ وہ جنگ اپنی مرضی سے لڑتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ طالبان نے امریکا کے یہ تمام مطالبات ماننے سے انکار کردیا۔اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔

نائن الیون سے پہلے پاکستان جیسے خطے کے اہم ملک میں ’’بڑی تبدیلی‘‘ آنا انتہائی ضروری تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح افغانستان میں سوویت یونین کی یلغار سے پہلے پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر بھٹو کو پھانسی دلوانے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو طول دینا تھا۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر 1979ء کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے وزیر اعظم ہوتے اور اسی دوران سوویت یونین افغانستان میں اپنی فوجیں اتارتاتو معاملات کیا ہوتے؟اب ذرا سوچیں کہ نائن الیون کے بعد بھی ملک کے وزیر اعظم نواز شریف ہوتے اور امریکا ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم اور منتخب پارلیمنٹ کی موجودگی میں پاکستان سے مطالبات کرتا کہ ’’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف‘‘؟ تو پاکستان کا ردعمل کیا ہوسکتا تھا؟ جس طرح 1977ء میں ایک فوجی آمر 1979ء کے اہم واقعے کے لئے اقتدار میں لایا گیا تھا اسی طرح 1998ء میں جنرل مشرف کو 2001 ء کے نائن الیون واقعہ کے بعد کے حالات کے لئے لایا گیا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کے دور میں واجپائی جیسا چانکیائی شاطر ہندو لیڈرکیا امریکا کو علم میں لائے بغیر کشمیر کے معاملے میں لاہور مذاکرات کرنے آگیا تھا؟ واچپائی جانتا تھا کہ وہ مذاکرات کے نام پر جو کھیل نواز شریف کے ساتھ کھیلنے جارہے ہیں اسے پاکستانی فوج اچھا نہیں سمجھے گی اور یقینا ردعمل سامنے آئے گا اور فی الواقع ردعمل کارگل کی شکل میں سامنے آیا بعد میں جوکچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مشرف کا اقتدار پر قبضہ جمانا امریکا اور اس کے صلیبی اتحادیوں کے منصوبے کے مطابق نہیں تھا تو پھر نواز شریف کو ’’ڈیل‘‘ کے ذریعے سعودی عرب جلا وطن کیوں کیا گیا؟ ’’بین الاقوامی ضمانتی‘‘ اس سارے معاملے میں کیوں کودپڑے؟ لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کی امریکی وابستگیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بے نظیربھٹو کو ملک سے باہر رہنے پر کیوں مجبور کیا گیا؟کیا صرف اس لئے کہ نائن الیون ہونے والا تھا اورپاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا جو فرد واحد انہیں دے دیتا اور ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ مشرف نے امریکیوں کو وہ کچھ دیا جو کسی جمہوری ملک میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

افغانستان میں بڑا کھیل شروع ہونے سے دو برس پہلے 1977ء میں ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور 1998ء میں مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمایا اور دو برس بعد نائن الیو ن ہوا! افغانستان میں ہونے والے ہر بڑے کھیل سے پہلے پاکستان میں آمریت مسلط کی گئی

امریکا افغانستان میں ایسا جوا کھیلنے آیا تھا جو آج تک کوئی نہ جیت سکا ۔ لیکن دس برس تک افغانستان میں رہ کر امریکا روس اور چین کو اقتصادی قوت بننے کے مواقع فراہم کرگیا۔ایران نے اس دوران انتہائی کامیاب پالیسی کے تحت روس اور چین سے قریبی اقتصادی اور عسکری روابط قائم کئے دوسری جانب ترکی میں اسلام پسندوں نے ووٹ کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کی اور روس اور چین کے ساتھ ایران کی پالیسی اختیار کی اور اپنی اقتصادیات کو مستحکم کیا۔چین نے نہ صرف خطے میں بلکہ پہلی مرتبہ اپنی تاریخ میں بحیرہ عرب سے نکل کر بحیرہ احمر کے کنارے واقع افریقی ممالک میں جڑیں جمائیں اور یہاں سے شمالی افریقا کا رخ اختیار کیا۔روس پر مکمل فتح کے خواب دیکھنے والے کارٹر دور کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی نے امریکیوں کو جگایا کہ ’’ہمیں افغانستان میں پھنسا ہوا دیکھ کر روس اور چین مشرق وسطی اور افریقا میں اپنے قدم جما چکے ہیں‘‘۔یہی وجہ تھی کہ امریکا نے افغانستان سے جلد از جلد نکل کر اپنی تمام تر توجہ مشرق وسطی اور افریقا میں روس اور چین کے پیڑ اکھاڑنے کی مہم پر لگائی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب دیر ہوچکی۔مصر کا انقلاب ،مغرب کافی حد تک ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ یمن کی صورتحال مشرق وسطی میں ’’بڑی تبدیلی‘‘ کاسبب بن سکتی ہے۔ جبکہ امریکا چاہتا ہے کہ شام کی صورتحال اسی طرح رہے کیونکہ اس صورت میں روس اورایران کبھی نہیں چاہیں گے کہ شام کی موجودہ حکومت ختم ہو جبکہ عرب ممالک شامی عوام کی حمایت کررہے ہیں۔ اس طرح عربوں،ایران اور روس کے درمیان تنازع مزید وسیع ہوگا جو امریکا اور اسرائیل کے حق میں جاتا ہے ۔ لیبیا اس وقت مغربی منصوبے کے مطابق عملا دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ شمالی لیبیامغرب نواز حکومت کے ہاتھ میں ہے جبکہ جنوبی لیبیا پر باغی قابض ہیں۔ شمالی لیبیا سے نکلنے والے تیل کو محفوظ بنانے کے لئے یورپی ممالک پر مشتمل نیٹو فوجیں دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ شمالی لیبیا کے تیل کی تنصیبات پر چینی ماہرین بیٹھے تھے جنہیں قذافی کے بعد وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔مشرق وسطی اور شمالی اور وسطی افریقا میں چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے امریکا اور اس کے صلیبی صیہونی اتحادیوں نے وارداتیں شروع کروائیں۔ تاکہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ اس تعلقات کو کشیدہ کیا جاسکے تو دوسری جانب اگر سنکیانگ کا یہ سلسلہ زور پکڑتا ہے تو چین کو افریقا اور مشرق وسطی کے معاملات سے دور رکھنے میں مدد مل سکے۔ ہم پہلے بھی ا س بات کااظہار کرچکے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل مل کر 2016ء کے آخر تک مشرق وسطی میں ’’بڑی واردات‘‘کی تیاری کرچکے ہیں۔لیکن اس سے پہلے پاکستان کے جوہری اثاثے ٹھکانے لگانا انتہائی ضروری ہے۔ امریکا اور اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت سات برس تک حاصل کرلے گا۔ اس لئے ابھی عربوں کو ایرانی جوہری صلاحیت سے ڈرا کر ہتھیاروں کی خریداری کے بڑے بڑے آرڈرز حاصل کئے گیے ہیں۔ لیکن پاکستان کا جوہری اثاثہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس لئے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے داخلی سطح پر جو کھیل کھیلا گیا ہے اسے سمجھنا مشکل نہیں ۔ دوسری جانب امریکا کی معیشت ایک خاص منصوبے کے تحت زوال پذیر کی جارہی ہے۔ ڈالر کا زوال صرف امریکا کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کا زوال ہوگا۔ اس حوالے سے ہمیں چند سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں:

٭اچانک دنیا میں سونے کی قیمتیں کیوں بڑھی تھی؟ ٭ عالمی سطح پر تیل پہلے کیوں مہنگا کیا گیا بعد میں کیوں اس کی قیمت گرائی گئی؟

٭امریکا سمیت دنیا بھر کی معیشت گر رہی ہے لیکن اسرائیل کی معیشت اب تک کیوں اوپر جارہی ہے؟

٭لیبیا پر حملہ آور نیٹو شام میں عوام کی مدد کے لئے کیوں گریزاں ہے؟

اس بڑے کھیل کے زہریلے اثرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ صرف ایران اور عرب ممالک ہی آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیتے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف اغیار کا ہتھیار نہیں بنیں گے تو امریکا اور اسرائیل کو شکست دینے کے لئے کسی جنگ کی ضرورت نہیں تھی ،یہ خودبخود ختم ہوجاتے۔