پاک امریکا تعلقات اور افغان طالبان

وزیر اعظم پاکستان عمران خان جس وقت وائٹ ہاؤس پہنچے تو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ امریکا میں خطے کی خوشحالی اور امن کا بیانیہ لیکر آئے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے امریکی صدر کو ”نئے پاکستان“ کا ویژن بھی واضح کیا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ اس ملاقات کو انتہائی خوشگوار دیکھ رہے ہیں اور اس ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مزید بہتری آئے گی۔صدر ٹرمپ کے اس بیان سے محسوس کیا جاسکتا ہے امریکا کو خطے میں پاکستانی اہمیت کا اندازا ہے خصوصا افغانستان کے معاملے میں پاکستانی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں کیونکہ خطے کی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے اس لیے پاکستان کی ترجیحات کا اندازا لگانا مشکل نہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں امریکاکو مشکلات کا سامنا ہے، بظاہر وہ وہاں سے اپنی فوجیں پرامن طریقے سے نکالنا چاہتا ہے امریکا کی نظر میں پاکستان کی مدد کے بغیر یہ مسئلہ آسانی سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اس وقت پاکستان کو افغانستان کے معاملات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔اس حوالے سے اس ملاقات سے پہلے جو گراؤنڈ ورک کیا گیا ہوگا وہ تو پہلے ہی سے طے شدہ ہوگا کیونکہ ان ایک دو گھنٹوں کی ملاقاتوں کے دوران ہی معاملات طے نہیں ہوتے بلکہ دورے سے بہت پہلے زیادہ تر معاملات طے پا جاتے ہیں اس کے بعد جاکر اس قسم کے اہم دوروں کا اعلان کیا جاتا ہے۔اس لیے دونوں طرف کے ورکنگ گروپ پہلے سے ان نکات پر کام کررہے تھے۔
اس ملاقات کا جو ایجنڈاطے کیا گیا تھا اس میں دفاعی تعاون، باہمی تجارت، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کے سلسلے میں تعاون شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان میں امریکی صدر طالبان کو جنگ بندی کے لیے راضی کرنے کے حوالے سے پاکستان کے کردار کا خواہش مند ہے۔ جہاں تک شکیل آفریدی کی رہائی کا امریکی مطالبہ ہے اس حوالے سے بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ان بڑی ملاقاتوں کے تناظر میں ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف افغانستان کے معاملات ہیں، سعودی عرب میں امریکی فوجیں دوبارہ اتر چکی ہیں اور مشرق وسطی میں امریکا ایران کشیدگی کی وجہ سے دنیا بظاہر بڑے تصادم کی جانب جاتی نظر آرہی ہے یوں وزیر اعظم عمران خان کے اس دورہ امریکا کے دوران امریکی انتظامیہ پاکستان کو کس تناظر میں دیکھ رہی ہے۔غیر سرکاری عرب صحافتی ذرائع کے مطابق، برطانیا، جرمنی اور ہالینڈ کے درمیان بحر ہرمز کے راستے پر کنٹرول کے لیے ایک خاموش معاہدہ ہوچکا ہے، امریکا بحر ہرمز، اور خلیج عمان کے معاملے میں ایران کو دھمکیاں لگا رہا ہے۔ اس حوالے سے شام کے بعد وہ عراق میں بھی اپنی عسکری موجودگی کو دوبارہ بڑھا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کیوں اور کس لیے کیا جارہا ہے؟ پاکستان اور اس کی گوادر پورٹ جو خلیج عمان کے بالکل سامنے واقع ہے کیا ان تمام حالات سے لا تعلق رہ سکے گا؟ جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ تمام ”امن مذاکرات“ کا مقصد یہاں امریکی مفادات کے تحت حکومت کی تشکیل ہے جس میں محدود پیمانے پر امریکا کی عسکری موجودگی بھی شامل ہے لیکن اس سلسلے میں افغان طالبان اپنا الگ موقف رکھتے ہیں جس کے مطابق امریکا کا ایک فوجی بھی افغان سرزمین پر نہیں رہ سکتا، اس موقف میں گلبدین حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی بھی افغان طالبان کے موقف کی حمایتی ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان افغان طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں اس بات پر قائل کرے کہ خطے کے امن کی خاطر افغان طالبان امریکاکی اس تجویز سے اتفاق کریں۔ یقینی بات ہے کہ یہ ایک مشکل امر ہے کیونکہ افغان طالبان ہوں یا کوئی فریق پاکستان اپنی رائے کا اظہار تو کرسکتا ہے لیکن اسے قبول کرنے کے لیے افغان طالبان کو مجبور نہیں کرسکے گا۔ اس لیے پاکستان کے لیے آنے والے وقت میں ایک طرف افغان مسئلے کے حوالے سے امریکی خواہشات ہیں تو دوسری طرف افغان مسئلے کے سب سے بڑے فریق افغان طالبان ہیں۔ ماضی قریب میں اگر امریکا اپنے مفادات کے نفاذ پر زیادہ ضد نہ کرتا تو ممکن ہے یہ مسئلہ بہت پہلے حل کیا جاسکتا۔
امریکی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ افغانستان میں ہونے والی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان اور اس کے عوام ہوئے ہیں اس لیے پاکستان کی بھی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جلد سے جلد کوئی پیش رفت ہو تاکہ خود پاکستان ان حالات کے منفی اثرات سے نکل سکے۔ پاکستان کی اس صورتحال کو سامنے رکھ کر ماضی میں بھی امریکی اس قسم کا دباؤ بڑھاتے رہے ہیں کہ امریکی تناظر میں افغان مسئلے کے حل سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا اور یہاں امن وامان کی صورتحال پیدا ہوسکے گی۔ خطے میں امن کی اس ہری بتی کے پیچھے لگاکر امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان افغان طالبان پر زور ڈالے گا کہ وہ اپنی سخت شرائط سے کچھ پیچھے ہٹیں اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کرکے اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔یہ امریکیوں کا خیال تھا لیکن اس کے برعکس پاکستان کی پوزیشن ایسی نہیں تھی کہ وہ افغان طالبان کو ایسا کرنے پر مجبور کرسکے۔ بلکہ اس نے ہر مرتبہ افغان طالبان اور امریکیوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب امریکوں کو اس بات کا یقین ہوجاتا کہ افغان طالبان ان کی بات تسلیم نہیں کریں گے تو وہ ان مذاکرات کی خبر خود ہی لیک کروا دیتے تھے۔
وائٹ ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے امریکا کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے ثالثی کی پیش کش بھی کی،اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغانستان میں لاکھوں جانیں بچانے کا سبب بنے گا۔ ایک سانس میں ان دو باتوں کا ادا کیا جانا اس جانب واضح اشارہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکا پاکستان کے ساتھ ”کچھ لو کچھ دو“ کی پالیسی چلنا چاہتا ہے کہ ایک طرف وہ مسئلہ کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالث بنتا ہے تو دوسری جانب پاکستان امریکا اور افغان طالبان کے درمیان پل کا کردار ادا کرے۔ جس طرح ہم نے پہلے کہا کہ ملکوں کے تعلقات اپنے اپنے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں یہی حال امریکا کا بھی ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں کے موجودہ حالات کو اپنے موافق پاتا ہے کیونکہ ایک دو کو چھوڑ کر عرب حکومتیں اس وقت امریکا کی جانب سے اس خوف میں مبتلا کردی گئی ہیں کہ ان کے عوام ان کا تختہ الٹ سکتے ہیں دوسری جانب ایران کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے جس کے حوالے سے ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ عراق، شام اور یمن تک ایرانی مداخلت کو امریکا، یورپ اور اسرائیل نے جس انداز میں خاموشی سے ”برداشت“ کیا ہے اس کے کئی رخ ہیں۔ امریکا اور اسرائیل عرب حکمرانوں کے اذہان میں یہ بٹھانے میں کامیاب ہوئے کہ ایران اگر عراق، شام، لبنان اور یمن میں اپنی پراکسی کے ذریعے مداخلت کرسکتا ہے تو پھر کوئی عرب ملک اس کی دسترس سے باہر نہیں، اس کے بعد یمن کے حوثی باغیوں پر جس وقت سعودی عرب نے اپنے مقامی اتحادیوں کے ذریعے حملے کیے اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ یمن کی اس بغاوت پر قابو نہ پاسکے تو دنیا اور خود عرب حکمرانوں پر یہ بات عیاں کردی گئی کہ یہ عرب اتحاد اگر حوثی تنظیم پر قابو نہیں پا سکتا تو اپنا دفاع کیسے کرسکے گایہی وہ حالات تھے جب سعودی عرب میں ایک اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا گیا جس کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سپرد کی گئی لیکن موجودہ حالات میں عرب حکمرانوں کو پھر باور کرایا گیا کہ مسلم عسکری اتحاد میں شامل مسلم ممالک کے نزدیک مقامات مقدسہ کی حفاظت زیادہ اہم ہوگی نہ کہ عرب حکمرانوں کے دشمنوں سے لڑنا۔ اس لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب جبکہ سعودی عرب کی جانب سے امریکی فوج کو دوبارہ وہاں قیام کی اجازت دے دی گئی ہے تو یہ مسلم اتحاد کس مرض کی دوا ہوگا؟
دوسری جانب پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبہ معاشی لحاظ سے امریکا کے لیے شاید اس قدر اہم نہ ہو جتنا اسے اس بات کی فکر ہے کہ چین گوادر کے راستے اس جگہ پر سر نکال کر کھڑا ہوگیا ہے جس کے بالکل سامنے خلیج عمان ہے اور اس سے کچھ آگے بحر ہرمز کی تنگ پٹی ہے جہاں سے دنیا کا ستر فیصد سے زیادہ تیل گزر کر باقی دنیا میں پہنچتا ہے۔ اس لیے امریکا اور نیٹو میں شامل ممالک کی خواہش تھی کہ وہ بحر ہرمز پر اپنا مستقل کنٹرول قائم کریں اسی وجہ سے اب برطانیابھی ایران کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ منصوبہ بندی سے کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے تیل بردار جہازوں کے اغوا کا ایک سلسلہ شروع کیا گیاتاکہ دنیا کو اس بات پر قائل کیا جاسکے کہ اس تزویراتی بحری پٹی پر کنٹرول حاصل کیے بغیر دنیا کے لیے تیل کی رسد محفوظ نہیں بنائی جاسکی۔ یوں امریکا، برطانیا، جرمنی اور ہالینڈ نے یہاں اپنے مستقل پنجے گاڑنے کا منصوبہ بنایا ہے یہ سب سازشیں ایران کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے کر پیدا کی گئی ہے۔ تاکہ چین اور روس کے رسوخ سے اس علاقے کو دور رکھا جاسکے۔
ان تمام حالات کے پس منظر میں امریکی چاہتے ہیں کہ افغانستان سے ان کا فوجی انخلا تو ہو لیکن کچھ فوجی اڈے اسی کی تحویل میں رہیں تاکہ کل جس وقت مشرق وسطی بڑی جنگ کی لپیٹ میں آئے تو وہ پاکستان، چین اور روس کو اس جانب سے بھی کاؤنٹر کرسکے۔ لیکن یہ خواب اس وقت پورا نہیں ہوسکے گا جب تک افغان طالبان اپنے مطالبات پر اڑے رہیں گے اس لیے صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ مستقبل میں پاکستان افغانستان میں دس لاکھ جانیں بچا سکتا ہے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو رام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یعنی پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد بھی یہاں رہ جانے والے
امریکا اور اس کے صہیونی اتحادیوں کے لیے مشکل پیدا نہ کریں۔ اس کے بدلے میں امریکی صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ بہت مہنگا سودا ہوگا کیوں کشمیر کے معاملے میں امریکا کیا ثالثی کرسکے گا اس کا اندازا ہمیں اس کی تاریخ سے ہے وہ صرف افغانستان میں پاکستان کے ذریعے اپنا کام نکلوا کر مشرق وسطی کے بڑے کھیل میں اپنے اور اسرائیل کے لیے آسانیاں تلاش کرے گا۔