مولاناسلمان ندوی صاحب کی بابری مسجد تجویز پر محشر برپاکیوں؟

مولانا  سید سلمان حسینی ندوی صاحب استاددارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنونے چند روز قبل مشہور ہندو لیڈر روی روی شنکر کے ساتھ بابر ی مسجدتنازع کے سلسلے میں ملاقات کی۔ انھوں نے ملاقات کی وی، ڈیوسوشل میڈیا پر کیا ڈالی کہ پورے ہندوستان میں ایک محشر برپا ہوا ۔سوشل میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ نئے پوسٹس اورخیالات کے سیلاب نے تمام تر حدود و قیود پھلانگتے ہو ئے مولانا کے خلاف اور حمایت میں ایک محاذ کھول رکھاہے ۔مخالفین اور حمایتیوں کے روز نئے خیالات اور دلائل کے بعد انہیں دیکھنا پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے ۔دراصل پورا ہنگامہ اس بات پر ہے کہ مسلمانانِ ہند کے اب تک اپنائے گئے موقف کے بالکل برعکس مولانا سلمان ندوی صاحب نے یہ تجویزکیوں پیش کی کہ ’’ہم متنازع جگہ ہندؤں کو دیدیں اس کے عوض میں حکومت ہمیں اسے دوگنی زمین کہیںفراہم کرے جہاں مسجد کے علاوہ ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جائے گی ‘‘۔ساتھ ہی ساتھ مولانا کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ اصل جگہ سے دستبرداری کی صورت میں حکومت بابری مسجد شہید کرنے والوں کو سزا دیدے ،اس مسئلے کے نام پر اب تک ہو ئے شہیدوں کو معاوضہ فراہم کیا جائے ،تمام شدت پسند ہندؤ تنظیمیں ہمیشہ کے لیے دیگر جگہوںپر کیے گئے دعوؤں سے دستبردار ہو جائیں جن میں بہت ساری مساجد،خانقاہیں ،قبرستان اور مدارس شامل ہیںاور مولانا نے ملک میں خوشگوار برادرانہ ماحول کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ جب بھی مستقبل میں ہندؤں اور مسلمانوںکے بیچ پرتناؤ صورتحال جنم لے گی اس وقت مسلم اور ہندؤ علماء کی پہلے سے تشکیل شدہ کمیٹی فوراََ حالات کو قابو میں لانے کے لیے مشترکہ موقف اپناتے ہو ئے دونوں طرف کے شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنا دی گی ۔

ان تمام نقاط میں اصل ہنگامہ اس بات پر ہے کہ ’’مولانا نے شہید بابری مسجد کی زمین ہدیہ کرنے کی تجویز کیوں پیش کی ہے؟ ‘‘مولانا کے دوسرے مثبت پر نقاط پریہ تجویز اس قدر غالب آچکی ہے کہ کوئی نہ ان کی طرف توجہ دے رہا ہے نا ہی سننے کے لیے تیار ہے ۔اس کی وجہ وہ ذہنیت ہے جس کو پروان چڑھانے میں میرے سمیت تمام صاحبانِ جبہ و دستار برابر کے شریک ہیں ۔مولانا کی تجویز سے ایک لمحہ ہٹ کر اگر ہم غور کریں تو محسوس ہوتاہے کہ عوام الناس سے شکوہ کی کوئی گنجائش خودخواص نے نہیں چھوڑی ہے اس لیے کہ وہ’’ خاص علمی ماحول ‘‘کوطاقت بخشنے میں عرصہ دراز سے مشغول ہیںجہاں رٹی رٹائی باتوں سے الگ اور ذرا ہٹ کر سوچنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔یہ معاملہ اسی مسئلے کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے جمیع فقہی اور شرعی مسائل میں یہ جمود زدہ بیمار ذہنیت اس حدغالب آچکی ہے کہ کوئی عالم اگر کسی بھی مسئلہ میں ائمہ اربعہ کے شاگردوں کی بات مع دلائل و جواز پیش کرے تو بھی اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔مقلدانہ مزاج (جس کو ہم نے صدیوں سے پروان چڑھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے )نے ہمیں فقہی مسائل میں ہی نہیں بلکہ علمی ،سائنسی ،سماجی ،تاریخی اور سیاسی مسائل میں بھی نومولود بچوں کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جس پر ہمارے بڑوں یا بزرگوں نے ایک مرتبہ مہر لگا دی قیامت تک کے لیے ایسی ’’وحی‘‘بن گئی کہ ایک قدم باہر گناہ اور ارتداد نا صحیح جرم ضرور ہے ۔مجھے ہر ایسے موقع پر،امام احمدبن حنبلؒاور امام ابن تیمیہ ؒ کے بعد مولانا سید مودودیؒ یاد آتے ہیں جنہیں علمائِ عصر نے اس قدر مطعون کردیا کہ ایک کو کوکوڑے کھانے پڑے ،دوسرے کو جیل کے اندر مر جانے پر مجبور کردیا گیا اور تیسرے کو گالی کے ہم پلہ بنا دیا ۔المیہ یہ ہے کہ ’’تفرداتِ علماء‘‘سے واقف ہمارے بڑوں نے بھی اجنبی رائے رکھنے یا دینے کو ناقابل معافی جرم بنا دیا ہے ۔مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کے عقائد،افکار،تصورات بلند حوصلوں اور عزائم مولانا وحید الدین خاں صاحب کی طرح جمہور سے الگ اور مختلف نہیں ہیں ۔بابری مسجد قضیہ سے متعلق ایک رائے دینے پر جب ان کے ساتھ ایسا ’’غیر مہذب‘‘رویہ اپنایا جا سکتا ہے تو پھر دوسروں کے لیے کیا گنجائش نکل سکتی ہے تصور کرنا اب محال نہیں ہے ۔

مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویزکوخاص مسلم حلقوں نے اُس مخصوص اندازاور پس منظر میں لینے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے جس میں اس طرح کی تجاویز کو شریعت کی ترازو میں تولنے کے برعکس اس من پسند ترازو میں تولا جاتا ہے جہاں پلڑے کو ہر حال میں اپنے ہی جانب جھکانے پر مجبور کیا جاتا ہے ،نہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ بابری مسجد تنازعہ سے ذرا ہٹ کر دیکھ لیجیے کہ بین المسلمین اختلافات میں بھی ہم نے مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی اجازت تو درکنار بلکہ ہم نے ہمیشہ’’ مسجد جہاں ہے وہاں ہی قیامت تک رہے گی ‘‘کا فتویٰ صادر کر کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کردی ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی حضرت امام اہلسنت احمد بن حنبلؒ تو دور کی بات خود حضرت امام محمد شیبانیؒ کے فتوے کے مطابق فتویٰ نہیں دیا بلکہ ہم بضد امام ابویوسف ؒ کے فتوے پر رہے آخر کیوں؟خود میرے گاؤں میں ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ محلے کے لوگ ایک مسجدمیں تنگی کے پیش نظر دوسری جگہ مسجد بنانے اور پہلی کو شہید کر کے قرآنی درسگاہ بنانے کے خواہش مند تھے میں نے ان کے سامنے نامی گرامی مفتیوں سے بات کی تو انھوں نے پہلی اور آخری بات یہی کہی کہ پہلی مسجد قیامت تک مسجد ہے لہذا لوگ پہلی مسجد میں دوسری تیسری منزل کا اضافہ کریں مسجد نا بنائیں حالانکہ انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتی آبادی کے لیے یہ جگہ ہر لحاظ سے بہت تنگ تھی ۔ عوام نے نا میری اور نا ہی مفتیوں کی مانی بلکہ اپنے طور پر شاندار مسجد تعمیر کی جس میں بہت سارے لوگ فتوے کے پس منظر میںابھی تک نماز پڑھنے میں ترددمحسوس کرتے ہیں ۔مفتیان ِکرام اور علمائِ عظام کے شدت اور تکرار کے ساتھ ان فتوؤں نے عوام تو عوام لکھے پڑھوں کا بھی یہ ذہن بنا لیا ہے کہ میرے فیس بک پر سلمان صاحب کے متعلق ایک پوسٹ ڈالنے پر ایک صاحب نے مولانا کو نعوذباللہ مرتد قراردیدیا ۔عوام الناس کی بد زبانی ،بدتمیزی،لعن وطعن،توہین و تحقیر پر کیوں حیرت ہوگی جب پارلیمنٹ ممبر بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب اور اعظم خان صاحب بھی مولانائے محترم سے متعلق وہ زبان استعمال کرے جو جاہلوں اور آوارہ لفنگوں کو بھی زیب نہیں دیتی ہے ۔یہ ہے وہ شر جو میں نے اور آپ نے پھیلا رکھا ہے ،جس کو میں نے اور آپ نے پروان چڑھایا ہے اور افسوس کہ ایک روز ہم خود اس کی ضد میں آتے ہیں ۔ (جاری ہے)