خونِ مسلم کے پیاسے رہزن

(آخری قسط)
اسی دن شوپیاں سے چند کلو میٹر دور کچھ ڈورہ گائوں میں ایک اور معرکہ آرائی ہوئی جو پورا دن جاری رہی۔فوج اور ٹاسک فورس نے مصدقہ اطلاع ملنے پر علاقے کا محاصرہ کیا،جس کے دوران جنگجوئوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی۔معلوم ہوا ہے کہ طرفین کے درمیان دن بھر گولیوں کا تبادلہ جاری رہا،جس کے دوران خود کار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا،جس کی وجہ سے پورا علاقہ گولیوں کی گن گرج سے گونج اٹھا۔دن بھر جاری رہنے والی جھڑپ میں4جنگجوجاں بحق ہوئے،جبکہ جھڑپ میں3فوجی اہلکار ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہوئے جنگجوئوں کی شناخت اعتماد احمد ساکنہ امشی پورہ،سمیر احمدساکنہ ہیلو اور اشفاق احمد پڈر ساکنہ پڈرپورہ شوپیاں کے بطور ہوئی۔اس جھڑپ میں2مکانات بھی زمین بوس ہوگئے۔اس جھڑپ کے دوران عوام سڑکوں پر نکل کر فوج کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔پولیس اور فوج مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے دوران ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھے جبکہ ایک زخمی زبیر احمد پال ساکنہ گوپال پورہ امام صاحب کولگام اسپتال میں دم توڑ بیٹھا جبکہ محمد اقبال بٹ صورہ اسپتال میں چل بسا اور معراج الدین میر سرینگر لیجانے کے دوران پلوامہ میں دم توڑ بیٹھا۔جھڑپ کے دوران لوگوں نے جائے وقوع پر حملہ کیا جس کے دوران ملبے کے نیچے چھپے بیٹھے دو عسکریت پسند زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایک کی لاش کو لوگوں نے زندہ سمجھ کر شوپیان اسپتال لایا جس کے فوراً بعد اسپتال پر فورسز نے دھاوا بول دیا اور اندھا دھند فائرنگ کے علاوہ شدید شلنگ کی۔اس سے قبل جب شوپیان کے جنگجو کمانڈر زبیر احمد ترے کی نماز جنازہ عید گاہ شوپیاں میں پڑھائی جارہی تھی تو ہزاروں لوگوں کو منتشر کرنے کیلیے شلنگ کی گئی جس میں قریب20 افراد زخمی ہو گئے۔(روز نامہ بلند کشمیر)

اسی روز جنوبی کشمیر کے معروف اور قدیم ترین ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) کے دیا لگام میں دوران شب معرکہ آرائی کے دوران ایک مقامی جنگجو جاں بحق ہوا۔پولیس کے مطابق دیالگام میں جنگجوئوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر فوج نے ہفتہ و اتوار کی درمیانی شب اسد اللہ خان نامی شخص کے مکان کو گھیرے میں لیا۔ اس بیچ مکان کے اندر چھپے مجاہد کو ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی گئی مگراس نے پیش کش کو ٹھکرا یا اگر چہ مذکورہ نوجوان کوآمادہ کر نے کے لیے اس کے ماں باپ کو بھی جھڑپ کے مقام پر لاکر سرنڈر کرنے کی پیش کش کی گئی لایا گیا مگر اس نے پیش کش ٹھکرا کر مر جانے کو ترجیح دیدی ۔جس کے بعد طرفین کے درمیان مسلح تصادم ہوا جو دیر رات گئے تک جاری رہا۔ا س بیچ فورسزنے مکان کو دھماکوں سے زمین بوس کر دیا۔ جس کے سبب مکان پوری طرح تباہ ہوگیا جبکہ مکان کے صحن میں کھڑی ماروتی کارجل کر راکھ ہو گئی۔معرکہ آرائی کے دوران رؤف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دھرنہ ڈوروجاں بحق ہو گیا۔اس دوران جنگجوں کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جائے موقع پر پہنچی اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔شہیدکی نماز جنازہ تین مرتبہ ادا کی گئی ۔(روزنامہ رائزنگ کشمیر)

فوج اور مقامی مجاہدین کے درمیان جھڑپ کی خبریں گشت کرنے کے ساتھ ہی کچھ ڈورہ میں مرد و زن گھروں سے باہر آئے اور احتجاج کرنے لگے۔عینی شاہدین کے مطابق اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتے ہوئے مظاہرین نے جب جھڑپ کے مقام کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی توپولیس اور فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے ٹیر گیس گولے داغے۔طرفین میں جھڑپ کے دوران مظاہرین نے سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے پیلٹ اور گولیوں کا استعمال کیا جس میں 80 نوجوان زخمی ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق کچھ ڈورہ شوپیان میں جاں بحق ہوئے نوجوان جن میں رئیس احمد اور یاور احمد شامل ہیں کوجونہی اپنے آبائی علاقوں میں پہنچایا گیا تو وہاں کہرام مچ گیا۔۔ اس دوران جھڑپ کے مقام پر نوجوانوں کے علاوہ خواتین نے بھی احتجاج کیا جن کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے طاقت کا استعمال کیا۔ فورسز نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس اور پیلٹ کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو جھڑپ کے مقام سے پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کیں۔ دن بھر درگڈ اور کچھ ڈورہ میں جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں میں قریب130شہری زخمی ہوئے۔

فلسطین سے لیکر قندوز اور کشمیر تک سینکڑوں مسلمان نوجوانوں ،بچوں اور بوڈھوں کی شہادتوں کے پیش نظر پورا کشمیر مسلسل چھ روز تک بند رہا ۔ مگر افسوس یہ کہ پوری عالم انسانیت یہ سب جاننے کے باوجود خاموش ہے گویا کہ کہیں بھی انسان نہیں بلکہ جانور مر رہے ہیں ۔خدا جانے عالم اسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے پیمانے کیا ہیں وہ عسکری حمایت نا صحیح سیاسی یاسفارتی حمایت کیوں نہیں کرتے ہیں ؟وہ فلسطین ،کشمیر یا افغانستان پر برپا قیامت کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے ہیں ؟حکمرانوں کا اس کیخلاف کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ عالم اسلام پر مسلط حکمرانوں میں اکثریت بے غیرت مغربی ایجنٹوں کی ہے لہذا وہ نمک حرامی نہیں کر سکتے ہیں ۔رہی عوام وہ یا تو بے خبر ہے یا دبی ہوئی ۔قلمکار صحافی اور دانشور اپنے اپنے مقامی مسائل میں گرفتار ہیں حالانکہ انسانی جان کے تحفظ کو اولیت ہونی چاہیے مگر اس قاتلوں اور رہزوں کی دنیا کا کلیہ ہی الٹا ہے یہاں مظلوم کے برعکس لوگ قاتل اور ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہاں عوام سے لیکر خواص تک سبھی اپنے مفادات کے اسیر ہیں ایسے میں مظلومین کو مدتِ مدید تک کٹنا اور مرنا ہے اس لیے کہ اب روئے زمین پر رہزنوں ،ڈاکوں اور چوروں کی حکمرانی قائم ہے اور اس پر مظلومین کے خون کو پینا اب معمول بنتا جا رہا ہے اور اس ظلم و جبر میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ اب اس بنیاد پر تقسیم کرنا عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے ۔جن سے عدل وانصاف کی امید کی جاسکتی تھی وہی اب اس ظلم میں ووحشت میں برابر کے شریک ہیں ۔