کدی سوچنا وی ناں۔۔

دوستو، جب سے بھارتی طیارے تباہ ہوئے پاکستانی قوم کافی ’’شوخی‘‘ بنی ہوئی ہے، ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔۔عوام کا مورال عزم و حوصلے کے انڈیکس پر انتہائی بلندیوں پر ہے، کراچی میں ہم نے کئی علاقوں میں گھوم پھر کر دیکھا، بازار کھلے ہوئے تھے، سارے کام نارمل انداز میں چل رہے تھے، چائے خانوں اور ’’تھڑوں‘‘ پر طیارہ کی تباہی موضوع سخن تھی، سب اپنی فوج پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسارہے تھے، کہیں سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ قوم خوف زدہ ہے یا پھر ان پر جنگ مسلط ہونے کا خدشہ ہے۔۔ بات گلی کوچوں کی ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی پوری قوم ’’فیصل آبادی‘‘ بن کر جگتوں کی ڈوز دے رہی تھی، سب ڈھونڈڈھونڈ کر ایسی جملے بازی کررہے تھے کہ ہنسی روکے بنا چارہ نہیں تھا۔۔ دوسری طرف بھارتی عوام تھے جن کا میڈیا پاگلوں کی طرح ’’بھونکنے‘‘ میں لگاہوا تھا۔۔ کوئی بھی بھارتی چینل دیکھو تو لگتا تھا کہ بس جنگ شروع ہونا ہی چاہتی ہے۔۔ ہم نے بھارتی میڈیا کو دیکھ کر اندازا لگالیا کہ اب شاید اگلا ’’میڈیا بحران‘‘ بھارت میں آنا ہے، جس طرح کا نان پروفیشنل انداز وہ لوگ اپنائے ہوئے تھے اور جس طرح کی رپورٹنگ کررہے تھے لگتا تھا کوئی کامیڈی مووی چل رہی ہے۔۔بہرحال سنجیدہ باتیں بہت ہوگئیں۔۔ اب ذرا اپنے ’’اشٹائل‘‘ کی کچھ حالات حاضرہ پر گفتگو ضروری ہے، ورنہ آپ لوگوں نے کہناہے کہ یار مزہ نہیں آیا۔۔
بھارتی میڈیا پر شور مچاہواتھا کہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرادیا۔۔یہ اور بات ہے کہ یہ صرف منہ کے فائر ہی تھے، منہ کے فائر سے کبھی طیارے بھی تباہ ہوتے ہیں۔۔ہمارے صرف جے ایف تھنڈر نے ہی ابھی اڑان بھری ہے اور دو طیارے گراکر ثابت کردیا کہ پاکستان پر حملے کی کدی سوچنا وی ناں۔۔ ابھی دشمن سیناکو شاید علم نہیں کے ہمارے پاس جے ایف تھنڈر طیارے کے علاوہ بھی گجرطیارہ، وڑائچ طیارہ،
چودھری طیارہ وغیرہ بھی ہیں، ابھی تو وہ سامنے آئے ہی نہیں ورنہ لگ پتہ چل جاتا۔۔ گرفتار بھارتی پائلٹ کو جب ٹی وی پر چائے پیتے دیکھا تو ہمیں خوشی ہوئی کہ چلو بے چارے کی مہمان نوازی تو ہوئی ،یہ الگ بات کہ بیچارے کو چائے کے ایک کپ کی قیمت ’’مگ اکیس‘‘ کی صورت میں دینا پڑی۔۔ انڈین پائلٹ چائے بھی ایسے شرررر،شرررر کرکے پی رہا تھا کہ جیسے پائلٹ نہ ہو کوئی ٹرک ڈرائیور ہو۔۔اسے جب جمعہ کو رہا کیاگیا تو ہمارے پیارے دوست کا کہنا تھا کہ ۔۔ابھی نندن خوش نصیب ہے کہ جمعہ کو رہاہورہا ہے ورنہ یہاں تو اکثر لوگ جمعہ کو اندر چلے جاتے ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔مودی سرکارہمارے وزیر دفاع پرویزخٹک کی جسمانی کمزوری کو ہماری دفاعی کمزوری نہ سمجھے۔۔ہم نے ایٹم بم شیخ رشید کی شادی کے لیے نہیں رکھا۔۔
ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انڈیا نے تین بڑے فیصلے کر کے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔۔سدھو پاجی کو کپل شرما شوسے نکلوادیا۔۔سلمان خان کی فلم سے عاطف اسلم کے گانے نکلوادیے اور پاکستان کوٹماٹر کی سپلائی بند کردی۔۔انڈیا والوں ڈرو اس وقت سے جب ممبئی میں بھی ڈائیووسروس اور نیوخان کی بسیں چلنے لگیں۔۔جنگ کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے لیکن پاکستانی یہ سوچ کر خوش ہورہے کہ’’ ایٹم بمب چلدا ویکھاں گے‘‘۔۔ جنگ کے بعد ہم مودی کو ذہنی ٹارچر دینے کے لیے گائے کا گوشت کھلائیں گے۔۔لگتا ہے اب بالی وڈ میں ایک اور فلم بنے گی جس میں پاکستان پر حملہ کرتے دکھایاجائے گا لیکن حقیقت میں ٹماٹر بند کرنے کے علاوہ اس فلم میں کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، مودی نے اس قوم کو للکارا ہے جو چاول بھی ’’کرنل‘‘ کے کھاکھاکے بڑے ہوئے ہیں، جن کے پنکھے بھی ’’جنرل‘‘ کے ہیں، جو ’’کیپٹن‘‘ کا سگریٹ پیتے ہیں، جن کے گھی ’’مجاہد‘‘ ہے اور سیمنٹ فوجی۔۔انڈین فوج تو ہمارا بال بھی بیکا نہ کرسکی لیکن انڈین میڈیا ضرور ہمیں ہنساہنسا کر مارڈالے گا۔۔ اللہ ہم سب کو ان کے طوفانی ،ہذیانی، نسوانی بیان سے محفوظ رکھے۔۔
ہمارے ایک رائٹر دوست شوکت علی مظفر کا کہنا ہے کہ ۔۔محلے میں پھڈا ہوجائے تو دو چار ’’فنٹر‘‘ چیک کرنے جاتے ہیں کہ اگلی پارٹی کی تیاری کیسی ہے؟ پارٹی تگڑی ہو تو فنٹر آتے ہی بولتے ہیں۔۔اْستاد! اْدھر جانا بھی مت، انہوں نے تو بڑے بڑے لڑکے بلا رکھے ہیں۔اور اْستاد ، اپنے فنٹروں پر رعب جھاڑنے کے لیے جھوٹا بھرم دیتا ہے۔۔چلو تم لوگ بولتے ہو تو اْن کو پھر کبھی دیکھ لیں گے۔بھارتی طیاروں کی آمد بھی ویسی ہی تھی، جاکر بتادیا ہوگا ۔۔اْستاد! کدی سوچنا وِ ی ناں۔۔۔شوکت مظفر نے جنگ زدہ ماحول کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ ۔۔دریا میں بچہ گر گیا، فوراً ایک شخص کود ااَور بچے کو نکال لایا۔لوگوں نے اس کی بہادری کی تعریف کی لیکن وہ چیخا۔۔ پہلے یہ بتاؤ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔ اَنی دیو اے مذاق۔۔بھارتی پائلٹ بھی قریبی لوگوں سے یہی بول رہا تھا، پہلے کیوں نہیں بتایا کہ ہم پاکستان میں گھس گئے تھے۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انڈیا کی اوقات کا اندازا اِس بات سے لگائیں کہ وزیراعظم نے فارغ ہو کر، 5 دن بعد ان کو جواب دینا مناسب سمجھا۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ بھارت اس وقت سے ڈرے جب تاج محل کی دیواروں پرکوئلے سے لکھا ہوگا۔۔جئے بھٹو۔۔۔انہوں نے مودی سرکار اور بھارتی فوج کو اوپن چیلنج بھی دے دیا ہے، کہتے ہیں کہ انڈیاوالو،پاکستان پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں، تم ہمارے صرف ایک بندے کو مارکر دکھاؤ، ہم تمہیں طاقت ور تسلیم کرلیں گے۔۔ اگر تم میں ہمت اور حوصلہ ہے تو پہلے ہمارے بھٹو کو مارکردکھاؤ۔۔کیوں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔۔ویسے یہ ہمارے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے قوم کو نعرہ دیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔۔
طاقت اور حوصلہ تو مودی سرکارنے ہمارا دیکھ ہی لیا۔۔ ہماری قوم ذہانت میں بھی کسی سے کم نہیں۔۔ابوظہبی میں تین دوست جن میں ایک پاکستانی ایک انڈین اور ایک فلپائنی اکٹھے رہتے تھے،ان تینوں کو ایک جرم میں بیس بیس کوڑوں کی سزا سنا دی گئی۔جس دن سزا پر عمل درآمد ہونا تھااس دن وہاں کا کوئی قومی تہوار تھا۔قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ سزا تو لازمی دی جائے گی لیکن ہمارے قومی تہوار کی وجہ سے آپ تینوں ایک ایک رعایت لے سکتے ہو،سب سے پہلے فلپائنی سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟اس نے کہا کہ کوڑے مارنے سے پہلے میری کمر پر ایک تکیہ باندھ دیا جائے،چنانچہ اس کی کمر پر تکیہ باندھ کر کوڑے لگانے شروع کیے گئے،پندرہ سولہ کوڑوں کے بعد تکیہ پھٹ گیا اور باقی کوڑے اسے اپنی کمر پر سہنے پڑے۔اس کے بعد انڈین کی باری آئی،جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے تکیے کی حالت دیکھنے کے بعد کہا کہ میری کمر پر دو تکیے باندھ دیں،چنانچہ اس کی کمر پر دو تکیے باندھ کر بیس کوڑے لگا دیے گئے۔وہ بہت خوش ہوا کہ سزا پر عمل بھی ہوگیا اور تکلیف بھی نہیں ہوئی۔۔جب پاکستانی کی باری آئی تو قاضی نے کہا چونکہ تم ہمارے مسلم بھائی ہو اس لیے تمہیں دو رعایتیں دی جاتی ہیں بولو کیا چاہتے ہو؟ پاکستانی بولا۔۔پہلی رعایت تو یہ دیں کہ مجھے بیس کی بجائے چالیس کوڑے مارے جائیں،قاضی اور دیگر لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسی رعایت ہے،بہرحال پاکستانی سے دوسری رعایت کا پوچھا گیا تووہ کہنے لگا۔۔میری کمر پر اس انڈین کو باندھ دیں۔۔