بھائی کی سالگرہ اور بھائی گیری کے خلاف آپریشن

altaf hussain

ایم کیوایم کے بانی وقائد الطاف حسین کی آج سالگرہ منائی جارہی ہے جبکہ کچھ دیر پہلے پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق کی پانچویں برسی منائی گئی ۔وابستگان ایم کیوایم کے لیے قائد کی سالگرہ جتنی شدت کی خوشی لاتی ہےکم وبیش ڈاکٹر عمران فاروق کی المناک موت کا غم بھی اتنا ہی شدید ہوتاہے۔

افتاد طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
شدت کی محبت میں شدت ہی کےغم پہنچے

یہ شاید کسی نے سوچابھی نہیں تھا کہ ستمبر ایم کیوایم کےلیے اتنا ستمگر ہوگا ۔بارہ تاریخ کو اس کی ہڑتال کی کال وہ نتائج نہیں دےسکی جو پہلے ملتے تھے، تیرہ تاریخ کو اس کی ریلی میں الطاف حسین کا خطاب ہوسکا نہ ان کی کسی تصویر کو نمایاں کیا گیا۔مبادا انکی تصویر کی وجہ سے کہیں کوریج پر اثر نہ پڑے۔ اور آ ج سترہ ستمبر کوکراچی کی تاریخ میں کئی دہائیوں کے بعد یہ ہونے جارہاہے کہ الطا ف حسین کی باسٹھویں سالگرہ منائی جارہی ہے مگر اس میں الطا ف حسین کہیں دکھائی نہیں دیں گے،یہ مائنس الطاف فارمولے پر عمل درآمد ہے یا مائنس ایم کیوایم فارمولے کا آغاز۔۔

اٹھارہ مارچ انیس سو چوراسی کو قائم ہونے والی اور تیس نومبر ستاسی کو بلدیاتی انتخابات میں پہلی مرتبہ انتخابی سیاست میں ناقابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ایم کیوایم سیاسی پنڈتوں کےلیے چیلنج بن گئی ۔پیش گوئی کرنے والے جہاں بات ختم کرتے، ایم کیوایم کی پرواز کا آغاز ہی وہاں سے ہوتا۔آسمان سیاست پر کون کون سے ستارے چمکے اورپلوں کےنیچے سے کتنا پانی بہہ گیا۔کس کی قسمت میں چمکنا تھااور ٹوٹ کر گرنا کس کا مقدر ٹھہرا؟ کون دریائے سیاست میں تیرسکا اور کون ڈوب گیا یا کوئی تھا جو ڈوب کر بھی اس کی تہہ سے موتی چن لایا۔

دو پھول ساتھ پھولے قسمت جدا جدا ہے
نوشے نے ایک پہنا ایک قبر پہ پڑا ہے

یہ سب ہو نا تھا ،ہوگیا ، آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے والاہے ؟کڑے امتحان کےدن آنا، ایم کیوایم کے لیے کوئی نئی بات نہیں ،شاید لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے سوا کوئی ایسی مشکل نہیں جو پہلے نہ گزری ہوبلکہ اس سے بھی سخت حالات رہے ۔الطاف حسین کے خطاب پر غیراعلانیہ پابندی پہلے بھی رہی مگر وہ سب بیرونی عوامل تھے۔اس مرتبہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بعض حلقےداخلی مسائل کی بھی نشاندہی کررہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ الطاف حسین ہی ایم کیو ایم ہیں اور ایم کیوایم ہی الطاف حسین کا دوسرانام ہے ۔یہ ایم کیوایم کے کسی کارکن یا رہنما کا کوئی جملہ نہیں بلکہ یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ مہاجروں کی سیاسی نفسیات ، پارٹی کی اٹھان، اس کی تنظیم،کارکن کی فکری تربیت میں ہرجگہ الطاف حسین جھلکتے ہیں۔اس کے چاہے کتنے ہی مثبت یا منفی پہلو تلاش کرلیے جائیں ،عملا ً ایسا ہی ہے۔

مہاجروں کی سیاسی نفسیات ہی آنے والے دنوں اور انتخابات میں ایم کیوایم کا اثاثہ ہے جسے بروئے کار لانے کے لیے الطاف حسین کے راستے بھی بندہیں

سیاسی حلقوں کی جانب سےجن داخلی عوامل کا ذکر کیا جارہاہےان میں سب پہلا یہی ہے کہ مائنس الطا ف فارمولے پرغیر اعلانیہ عملدرآمد شروع کردیا گیا۔اس کے مہاجروں کی سیاسی نفسیات پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس سے قطع نظرمحض اندازوں کی بنیاد پرکام کیا جارہاہے جن مقتدر اداروں نے یہ سوچاہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کےساتھ سیاسی آپریشن بھی کیاجائے کراچی کسی سے لے کر کسی کو دے دیا جائے ،انہیں این اے دو سو چھیالیس کا ضمنی انتخاب نہیں بھولنا چاہیے جوعدم تحفظ کی مہاجر سیاسی نفسیات کامظہرتھا ، وہ اگر یہ سوچ رہے ہیں ستاسی کے بلدیاتی انتخابات سے بام عروج کو پہنچنے والی ایم کیوایم کواٹھائیس برس اور تین دن بعد(تین دسمبر دوہزار پندرہ کو) اسی راستے سے زوال کو پہنچادیا جائے تو ان کی یہ سوچ اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے کہ انتخابی سیاست میں کسی فریق کو ہرانے کے لیے رائج طریقوں میں کافی گنجائش موجود ہے۔خاص طور پر بلدیاتی انتخابات میں ذات، برادری، طبقے اور فرقے کے سارے حربے اپنی جگہ ،اس کے باوجوداتنے کم وقت میں انہیں ان کےمطلوبہ نتائج ملنے کی توقع نظر نہیں آ رہی۔ معاملہ اُلٹ بھی سکتاہے۔ اس پر تو پھر کبھی بات ہوگی کہ مہاجر سیاسی نفسیات کیا ہے؟ این اے دو سو چھیالیس کی پولنگ کے دن یہ بروئے کار آئی تو سارے اندازے غلط اور تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ اس لیے بھائی کی سالگرہ پر “بھائی گیری” کے خلاف آپریشن میں ان عوامل کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔

البتہ داخلی عوامل میں جہاں الطاف حسین کی طرف سے نظریاتی وفکر ی رہنمائی نہیں مل پائے گی وہاں اب ایم کیوایم میں ایسے کارکنوں کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے جنہوں نے قائد تحریک سے براہ راست اکتساب فیض کیا اور عالم نوجوانی میں پارٹی کے نظریاتی شاعر راشد عار ف (جوعلیحدہ ہوگئے تھے) کے شعرکی عملی تصویر بنے۔

لفظ مہا جر میں سمودیں گے جوانی اپنی
ہر اک موضوع پہ لکھیں گے کہانی اپنی

کارکن تو کارکن اب تو دوسرے درجے کے رہنماوں میں بھی ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ گئے کہاں ؟

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

ایم کیوایم نے مشکل حالات کا مقابلہ جس بوتے پر کیا ،آج اسی کی دہائی کا وہ نظریاتی کارکن یا تو موجود ہی نہیں ، اور اگر ہے تو اس میں ایسی تاب وتوانائی نہیں رہی یا پھر نظریات اور کارکن کے درمیان فاصلہ بڑھ گیاہے ۔ ایسے میں مہاجروں کی سیاسی نفسیات ہی آنے والے دنوں اور انتخابات میں ایم کیوایم کا اثاثہ ہے جسے بروئے کار لانے کے لیے الطاف حسین کے راستے بھی بند ہیں۔ اس لحاظ سے ایم کیوایم کےلیے آنےوالے دن بہت کڑے ہیں۔

مائنس الطاف فارمولے کو مائنس ایم کیوایم میں تبدیل ہونے سے بچانے کےلیے اس کی دوسرے درجے کی قیادت کو جس ریاضت کی ضرورت ہے وہ کرپائے گی یا نہیں ؟ الطاف حسین جس نئی قیادت کی بات کررہے ہیں وہ کب سامنے آئے گی ؟اس کا فیصلہ ہی ایم کیوایم کے مستقبل کا تعین کرے گا۔